معاشی مضبوطی سیاسی استحکام سے وابستہ

جمہوری نظام حکومت میں مذا کرات کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا کیونکہ مذاکرات جمہوریت کا حسن بھی ہیں اور جمہوری روایات کو بچانے اور زندہ رکھنے کاراستہ بھی ۔مذاکرات میں دونوں فریق اپنا اپنا موقف رکھتے ہیں اور جس کا موقف زیادہ مضبوط ،مدلل اور با وزن ہوتا ہے اسے مان کر ہنگامہ آرائی سے اجتناب کیا جا تا ہے کیونکہ سیاست دانوں کے پاس مذاکرات کی قوت ہی ان کا سب سے مضبوط ہتھیار ہوتی ہے. مملکت خداداد پاکستان کے منقسم اور کشیدہ سیاسی ماحول میں قومی اتفاق رائے کا ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بہرحال اس کے مشکل ہونے سے اس کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی کیونکہ مستقبل کے حوالے سے اہم مسائل پر قومی اتفاق رائے کی فوری ضرورت ہے ۔
اس وقت سیاست اور معیشت دو ہی بڑے مسئلے ہیں اور دونوں کی حالت انتہائی ابتر ہوتی جارہی ہے جب تک یہ دونوں مسائل حل نہیں ہوں گے ملک کی سمت درست نہیں ہوگی- ملکی سطح پر سیاسی محاذ آرائی کے اثرات تباہ کن ثابت ہورہے ہیں اسحاق ڈار کی سر توڑ کوششوں کے باوجود ڈالر مزید نیچے آنے سے انکاری ہے اسٹیٹ بنک کی جانب سے امپورٹس کی ایل سیز اور دیگر ادائیگیوں میں تاخیر سے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کو کم کرنے کی کوششوں نے اکانومی اور سرمایہ کاروں کو مزید پریشان کردیا ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں نے شہریوں کی چیخیں نکلوادی ہیں' مہنگائی نے اچھے اچھے سفید پوشوں کے بھرم کھول کر رکھ دیئے ہیں-سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس کی بد ترین لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ دنیا کے اقتصادی حالات اور سیلاب کے نقصانات نے انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا ہے' بڑی تعداد میں مزدوروں کو بے روز گاری کا سامنا ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا بھی یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں خاصی کمی آئی ہے۔اسٹیٹ بنک نے وفاقی حکومت کو قرض دینے سے انکار کیا ہے اور اگر فوری طور پر آئی ایم ایف کی گرانٹ نہ ملی تو ملک اگلے چند ہفتوں میں دیوالیہ ہوسکتا ہے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی ختم ہوگا تو معاشی بحران قابو میں آئے گا۔معاشی معاملات کو بہتر کرنے کے لئے بات چیت ضروری ہے۔حکمران اتحاد اور تحریک انصاف کے درمیان جاری سیاسی لڑائی میں پاکستان دن بدن بہت پیچھے جا رہا ہے' اندرونی وبیرونی چیلنجز بڑھتے جارہے ہیں۔مشکلات کا شکارملک کی معیشت کو بحران سے نکالنے اور پاکستان کو دیوالیہ پن کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاملات کا خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہونا ہی ملک وقوم کے مفاد میں ہے لیکن اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بدستور تعطل کا شکار ہیںترجمان آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ نظر ثانی تخمینہ جات ٹھیک نہیں ہیں-
پاکستان کو اس وقت ترقی کے راستے پر گامزن ہونے اور بنیادی مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک منصوبے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن کے اور زرِمبادلہ کی دائمی کمی کے اس چکر سے نکل سکے جس کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف سے بیل آوٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔جب تک ہم بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتے تب تک ہم ترقی کی سست رفتار، کم بچت اور سرمایہ کاری، بہت زیادہ خسارے، قرض اور بڑھتی مہنگائی کے چنگل سے نکل نہیں سکتے۔ اس حوالے سے وقتی حل کافی نہیں ہے اور طویل مدتی پائیدار حل کے لیے اتفاق رائے ضروری ہے۔کم ٹیکس بیس کی وجہ سے ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بہت کم ہے جو ہماری مالی پریشانیوں کی جڑ ہے یوں سنجیدہ ٹیکس اصلاحات ضروری ہوجاتی ہیں۔ اس کا مقصد پورے ملک میں ایک ٹیکس نظام کا نفاذ ہونا چاہیے جو منصفانہ اور سادہ ہو۔ ٹیکس چھوٹ کو ختم کرنا، سیلز ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانا بھی ان اصلاحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اوور ٹیکسیشن اور ہدف سے کم وصولیوں کی صورتحال کو درست کرنا ہوگا۔
پاکستان میں آئے روز گیس، تیل اور بجلی سے متعلق بحران عام شہری کی تکالیف میں اضافے کے علاوہ ملک کی مجموعی صنعتی پیداوار کو بھی متاثر کرتے ہیں اور عث معاشی ترقی سست روی کا شکار ہوتی ہے۔گزشتہ چند برسوں میں پاکستان توانائی کے مستقل اور شدید بحران کا شکار رہا ہے اور اس کے حل کے لئے مختلف تجاویز، منصوبے اور حکومتی اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس سلسلے کو اگر ہم ملک کی تیزرفتار ترقی اور خصوصا سی پیک جیسے بڑے منصوبوں سے جوڑیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور حقیقی اور پائیدار ترقی کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگامعاشی بہتری کا انحصار سیاسی استحکام پر ہے اور اس کے لیے جمہوریت کے تسلسل بلکہ برداشت اور اتفاق رائے کے ذریعے اس کے فعال رہنے پر بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کو متفق ہونے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کو صرف بیلٹ باکس تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ جمہوریت کو اس بات کا بھی فیصلہ کرنا چاہیے کہ انتخابات کے درمیان ملک کو کس طرح چلانا ہے۔
ملک میں فوج کا کردار بھی پر بھی مشاورت اور اتفاق کی ضرورت ہے۔ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ حکومت کا کنٹرول منتخب نمائندگان کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ یہ چیز عوام کی نظروں میں سیاست میں فوج کی مداخلت کو غیر قانونی قرار دینے کی نشاندہی کرتی ہے۔ عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماں کو بھی اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے اور اپنی سیاسی لڑائیوں میں فوج کو نہیں گھسیٹنا چاہیے۔دوسری جانب فوج کو بھی سویلین بالادستی کے اصول کا احترام کرنا چاہیے، ہاں یہ ضرور ہے کہ سیکیورٹی پالیسی پر فوج کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ طاقت کے سول ملٹری توازن کو دوبارہ ترتیب دینے سے بھی سیاسی استحکام کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے اور اس حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ان بچوں میں سے تقریبا ایک کروڑ 2 لاکھ یعنی تقریبا 44 فیصد 5 سے 16 سال عمر کی بچیاں ہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت 5 سے 16 سال کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں ان میں بھی اسکول چھوڑ دینے والے بچوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ہماری آبادی کے مسائل، معاشی جمود اور تعلیمی اور صنفی فرق نے پاکستان کو سماجی عدم استحکام کے خطرے سے دوچار کیا ہوا ہے۔ اگر آبادی پر قابو پانے کے اقدامات پر اتفاق نہیں کیا گیا تو کچھ دہائیوں بعد ہمیں سماجی زوال کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر اہم مسائل ہی پاکستان کے مستقبل اور قسمت کا تعین کریں گے۔ یہ ملک کی تمام سیاسی قیادت کے لئے قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان ہے کیا وہ اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر اس تاثر کو رد کرسکتے ہیں کہ پاکستان ریاست چلانے والوں سے محروم ریاست ہے؟