پاکستان انارکی سے بچ گیا!
اچھا کیا عمران خاں نے لانگ مارچ ختم کیا اور پنڈی میں ایک جلسہ کر کے واپس زمان پارک لاہور پہنچ گئے۔ اسلام آباد میں داخل ہوتے تو شاید بہت انارکی پھیلتی۔ مال و متاع کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوتا۔بہت اچھا ہوا کہ لانگ مارچ اور پی ٹی آئی کا جلسہ بخیر و خوبی اپنے اختتام تک پہنچا۔ ورنہ بہت سی قیاس آرائیا ں ہو رہی تھیں۔ بہت سے خطرات منڈلا رہے تھے۔ فیصل واوڈا نے تو اس ’’مارچ‘‘ کو خونی مارچ قرار دے دیا تھا۔
ملک میں سیاسی رسہ کشی نے ملکی معیشت کا حلیہ جس قدر بگاڑا ہے اُس پر کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سب کو سب کچھ پتہ ہے۔ مہنگائی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ ن لیگ کا دعویٰ تھا کہ اسحاق ڈار لندن سے آئیں گے تو ڈالر نیچے آ جائے گا۔ ملکی معیشت سنبھل جائے گی۔ لیکن ہم ایسا کچھ بھی نہیں دیکھ رہے۔ اسحاق ڈار کو لندن سے آئے دو ماہ ہو چکے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام انسان کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خاں کی مقبولیت کا گراف بڑھا ہے۔ یہ گراف نہ بڑھا ہوتا تو ن لیگ کو پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں ہرگز اتنی بڑی شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اپنے ہی گڑھ میں اس قدر ہزیمت نہ اٹھانا پڑتی۔بہرحال یہ سیاست ہے اور سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ بحث یہ ہو رہی ہے کہ کونسی جماعت آئندہ جنرل الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے گی۔ پی ٹی آئی کے ساتھ اس وقت نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں 18سال سے زائد ہیں۔ اور جن کے نام آنے والے اگلے الیکشن کے لیے ووٹرز لسٹوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ عمران جو کچھ بھی کہہ رہے ہوں، یہ نوجوان انہیں فالو کرتے ہیں۔
ایک بات تو سمجھ میں آنے والی ہے کہ عمران خاں کی سیاست کا جادو اس وقت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اگلے الیکشن میں انہیں ہرانا ن لیگ کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ اس ’’مشکل‘‘ کی بڑی وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں مہنگائی حد سے زیادہ بڑھی ہے۔ عام انسان اور دیہاڑی دار کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ ن لیگ کی نئی منطق اب یہ ہے کہ اگلے الیکشن کی کمپین میاں محمد نواز شریف چلائیں گے۔ جیسے ہی الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتا ہے نواز شریف لندن سے عازم ِ سفر ہوں گے اور خصوصی پرواز کے ذریعے لاہور یا پھر اسلام آباد پہنچیں گے۔ میاں صاحب کی لاہور آمد اسی صورت ممکن ہو گی کہ جب پنجاب سے پرویز الہٰی کا بوریا بستر گول کر دیا جائے۔ ن لیگ اور اُس کی پاکستان میں موجود قیادت اس معاملے کو بغور دیکھ رہی ہے کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی کو کب ممکن بنایا جائے یا اُن کی واپسی کا کون سا وقت زیادہ بہتر ، موزوں اور مناسب ہو گا۔آنے والے الیکشن میں جو بھی جماعت پنجاب میں اکثریت حاصل کرے گی، اقتدار اُسے ہی ملے گا۔ اس کے لیے ان تینوں بڑی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور اُن کی سینئر قیادت نے اپنے اپنے منشور کو مزید توانا اور بہتر بنانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ سب کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ منشور میںکیا ایسی چیز شامل کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوں تاکہ انہیں زیادہ ووٹ مل سکیں۔
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے اُن کا اپنا یہ کہنا ہے کہ جنرل الیکشن سے قبل اُن پر مختلف نوعیت کے مقدمات قائم کر دئیے جائیں گے جن میں اُن کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔ تاہم ایک بات تو طے ہے کہ اس بار عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر اپنے بل بوتے پر اگلا الیکشن لڑنا ہو گا۔ انہیں چاروں صوبوں میں لوگوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا ن لیگ کے لیے پنجاب میں اُن کا مقابلہ کرنا کچھ آسان نہیں ہو گا۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں جو پنجاب کی مختلف سیٹوں کے لیے ہوئے، پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری دکھائی دیا۔
ہمارا سیاسی کلچر ہے اور اسی سیاسی کلچر کی یہ روایت رہی ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار سے باہر آتی ہے چاہے اُس کی کتنی ہی خراب کارکردگی کیوں نہ رہی ہو اُسے عوام سے ہمدردی کا ووٹ مل جاتا ہے۔ ماضی کے حوالے سے ایسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت قائم تھی ، پنجاب میں ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں اُسے سخت ہزیمت و شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پی ٹی آئی اقتدار سے باہر آئی اور ن لیگ حکومت میں تو ن لیگ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی ناراضگی ہر برسراقتدار جماعت کے ساتھ رہتی ہے۔ اچھا ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ ورنہ اقتدار سے باہر رہنے والی جماعتوں کی طرف سے بدنامی ملتی تھی۔ باجوہ صاحب جاتے جاتے اچھا اعلان کر گئے۔ امید ہے فوج کی نئی قیادت بھی اس ’’اعلان‘‘ کی پوری طرح سے پاسداری کرے گی۔ سیاست کرنے والوں کو ہی سیاست کرنے دے گی۔ خود اس کا حصہ نہیںبنے گی۔ سیاست میں آج جو میچورٹی نظر نہیں آتی، شاید اسٹیبلشمنٹ کے سیاست سے دور رہنے کے بعد سیاست دانوں میں آ جائے۔ خدا کرے کہ ایسا ہو۔ ہم سب کی آج یہی دعا ہے۔