ایلیٹ سیاست
ایلیٹ سے مراد وہ بااثر گروپ ہے جو ملکی وسائل پر قابض ہوتا ہے۔ اس مخصوص گروپ ایلیٹ کلاس کے افراد زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی بودو باش رہن سہن کے رسم و رواج ہسپتال تعلیمی ادارے عوام سے مختلف ہوتے ہیں۔
ایلیٹ کلاس کے جو لوگ اقتدار پر قابض ہوتے ہیں وہ وی آئی پی کہلاتے ہیں اور وی آئی پی کلچر کی وجہ سے عوام سے مختلف نظر آتے ہیں۔پاکستان کی سیاست ایلیٹ کلاس کے قبضے میں آ چکی ہے جن میں سرمایہ دار، جاگیر دار، تاجر اور صنعتکار شامل ہیں۔ سیاست تجارت اور سرمایہ کاری بن چکی ہے۔ سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہوتا ہے۔
ایلیٹ کلاس 2 فیصد ہے جب کہ 98 فیصد عوام پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان کے عوام ایلیٹ کلاس کو اقتدار میں لانے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں پی پی پی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون۔ ان تینوں جماعتوں کے مرکزی عہدیداران کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے۔ تینوں بڑی جماعتوں کے انتخابی منشوروں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جیسے کسی ایک ہی دانشور نے یہ تمام انتخابی منشور تیار کیے ہیں ۔ ایلیٹ سیاست کا کوئی قومی اور عوامی نظریہ نہیں ہوتا اس نوعیت کی سیاست میں عام طور پر اسٹیٹس کو قائم رکھا جاتا ہے۔
اگر 2002ء جنرل مشرف کے دور سے لے کر 2008 ء آصف زرداری 2013 ء میاں نواز شریف 2018 ء عمران خان 2022 ء شہباز شریف کی اسمبلیوں کا جائزہ لیا جائے تو تسلسل کے ساتھ پرانے چہرے ہی نظر آتے ہیں۔ سیاسی ایلیٹ کلاس کا کوئی دین ایمان اور نظریہ نہیں ہوتا۔ 2002 ء سے 2022 ء تک کسی حکومت نے ٹیکس نیٹ کو وسیع نہیں کیا ہیومن ریسورس پر توجہ نہیں دی وی آئی پی کلچر ختم نہیں کیا ۔ ملک کو قرضوں کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
ایلیٹ سیاست میں ایلیٹ کلاس کے گھر اور گاڑیاں بڑے ہو جاتے ہیں اور کاروبار وسیع ہو جاتے ہیں جبکہ ریاستی ادارے زوال پذیر ریاست دیوالیہ ہو جاتی ہے۔ ایلیٹ کلاس اور ایلیٹ سیاست کو سمجھنے کے لیے بیرونی اور گردشی قرضوں کا ایک جائزہ قارئین کے دلچسپی کا سبب ہوگا۔
2008 ء میں بیرونی قرضے 45 بلین ڈالر 2013 ء میں 61 بلین ڈالر 2018 ء میں 95 بلین ڈالر اور 2022 ء میں 127 بلین ڈالر تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں گردشی قرضے 25 بلین روپے پی پی پی کے دور میں500 بلین روپے مسلم لیگ ن کے دور میں1100 بلین روپے اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں 2500 بلین روپے تھے۔ ایلیٹ سیاست میں قومی مفاد کا کسی کو احساس نہیں ہوتا۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے منافقت اور مکر و فن کی سیاست کا رواج ہوتا ہے۔
ریاست میں قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کا قانون چلتا ہے۔ایلیٹ سیاست میں سیاسی بصیرت فراست اور وژن کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔اس نوعیت کی سیاست میں مقامی حالات کے مطابق حل تلاش کرنے کی بجائے دوسرے ملکوں پر انحصار کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے کیونکہ ایلیٹ سیاست میں ایلیٹ کلاس کے مفادات انٹرنیشنل ایلیٹ کلاس سے مل جاتے ہیں۔
ایلیٹ کلاس آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو بڑی اہمیت دیتی ہے۔ایلیٹ سیاست میں جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کی جاتی۔سیاست عوامی ہونے کی بجائے شخصی اور خاندانی بن کر رہ جاتی ہے۔ایلیٹ سیاست میں کارکنوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ان کو صرف جلسے جلوسوں میں نعرے لگانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات نہیں کرائے جاتے اور سیاسی کارکنوں کو اپنے پارٹی امیدوار چننے کا جمہوری حق بھی نہیں دیا جاتا۔
پاکستان کی دو روایتی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں عمران خان کی تحریک انصاف کو لوگوں نے پسند کیا تھا ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ عمران خان سیاست میں تبدیلی لائیں گے اور ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔مگر افسوس ان کے دور میں بھی نہ تو چہرے تبدیل ہوئے اور نہ ہی نیا پاکستان تشکیل دیا جا سکا۔عمران خان کی اصل طاقت اور قوت تحریک انصاف اور انکے کارکن ہیں۔
عمران خان جماعتی انتخابات کرانے میں ہمیشہ قاصر رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے پاکستان تحریک انصاف کی مشاورتی کونسل کے چیئرمین اور نامور بیرسٹر حامد خان ایڈووکیٹ نے عمران خان سے ملاقات کی اور ان کو پارٹی کے اندر الیکشن کرانے کی تجویز دی۔ عمران خان نے ایک بار پھر وہی پرانا جواب دیا کہ الیکشن سے پہلے اگر پارٹی کے انتخابات کرائے گئے تو پارٹی دو گروپوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ اس لیے پارٹی کے اندر انتخابات عام انتخابات کے بعد کرائے جائیں گے۔جب کسی ملک میں ایلیٹ سیاست کا رواج پختہ ہو جائے تو پھر وہاں پر جماعتوں کی تنظیم اور اندرونی انتخابات کچھ حقیقت نہیں رکھتے۔
سیاسی جماعتوں کے کارکن سیاسی شعور سے بے بہرہ رکھے گئے ہیں اس لیے سیاسی کارکن جمہوری اصولوں کو اہمیت نہیں دیتے اور جمہوری سیاسی حقوق حاصل کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کے غیر جمہوری اور غیر سیاسی رویوں سے شخصیت پرستی وجود میں آتی ہے اور ایلیٹ سیاست کو فروغ ملتا ہے۔
ایلیٹ سیاست کو عوامی سیاست میں تبدیل کرنے کے لئے لازم ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن آل پاکستان سیاسی ورکرز کنونشن بلائیں اور اپنے جماعتوں کے قائدین کے سامنے اپنے جمہوری مطالبات رکھیں اور ان پر دباؤ ڈالیں کہ جماعتوں کے اندر مرکز سے لے کر یونین کونسل تک انتخابات کرائے جائیں اور پارٹی امیدواروں کو منتخب کرنے کا حق متعلقہ انتخابی حلقہ کے کارکنوں کو دیا جائے ۔سیاسی کارکن مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے بھی توانا آواز بلند کریں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن ہی مشترکہ کوشش سے ایلیٹ سیاست کو عوامی سیاست میں تبدیل کر سکتے ہیں۔