پڑھالکھا پنجاب منصوبہ پھر سے شروع کیا جائے
پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی مشرف دور میں بھی اسی منصب پر فائز رہے ہیں ۔ اس وقت وہ ق لیگ کے وزیراعلیٰ تھے اور تمام سیاہ وسفید اختیارات کے مالک تھے۔انکے ذہن ِرسا میں نت نئے منصوبے آتے تھے اور انہیں پروان چڑھانے کا شوق پورا کرتے تھے ۔ اس دور میں انہوں نے لاتعداد منصوبے شروع کئے ،جن میں 1122 منصوبہ ایک ضرب المثل کی طرح مشہور ہوگیا ہے ۔انکے پانچ سالہ دورِ حکومت میں مجھے انکے دربار میں ایک مرتبہ ہی باریابی کا شرف حاصل ہوا۔ نجانے ان کی میڈیا ٹیم نے یہ مہربانی مجھ پر کیسے کردی۔ بہرحال 90شاہراہ قائد اعظم کے دفتر میں انہوں نے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایک پریس کانفرنس کی ، جس میں پڑھا لکھا پنجاب کی اسکیم متعارف کروائی گئی ۔ انہوں نے اپنے تعارفی کلمات میں بتایا کہ اسکیم کا تین سالہ دورانیہ اس لئے رکھا گیا کہ پاکستان میں کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ تین سال سے زیادہ حکومت نہیں کرسکا۔ لہٰذا میں نے بھی ’ایاز قدرے بہ خودراشناس‘ کے محاورے کو مدنظرکو رکھتے ہوئے تین سالہ منصوبہ بندی ہی کی ہے ۔ ان تین برسوں میں ،میں پنجاب کو پڑھا لکھا بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ اور تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ان تین برسوں میں ہر سرکاری اسکول کی ضروریات ومسائل کا جائزہ مرتب کیا جائیگا کہ کس اسکول کی چار دیواری نہیں ہے ؟ کس اسکول میں بنچ نہیں ہیں ؟ کس اسکول میں اساتذہ و سٹاف پورا نہیں ہے؟ کس اسکول کی عمارت مکمل نہیں ؟ اور کس اسکول میں پینے کا پانی، کھیل کا گرائونڈاور بیت الخلاء کی سہولتیں نہیں ؟یہ ساری کمی بیشی میری صوبائی حکومت تین سال میں پورا کرکے دکھائے گی۔
وزیراعلیٰ سے بہت سے سوال و جواب کئے گئے۔ میں نے بھی ایک سوال کرنے کیلئے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ لیکن وزیراعلیٰ مجھے طرح دے گئے اور یوں ظاہر کیا کہ گویا مجھے دیکھ ہی نہیں رہے ، حالانکہ میں انکے دائیں ہاتھ پہلے نمبر پر بیٹھا تھا۔ اس پر انکے وزیر تعلیم نے وزیراعلیٰ کی توجہ میری جانب دلائی اور کہا کہ غالب صاحب کی بھی سنئے ۔ میں نے وزیراعلیٰ سے کہا کہ اگر آپ یہ سارا ریکارڈکمپیوٹرائزڈآن لائن اور اسے انٹریکٹو کردیں ،یعنی عام لوگ آپکے منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرسکیں اور آپ کو یہ بتاسکیں کہ بیوروکریسی کی طرف سے جن کاموں کی تکمیل کا دعویٰ کیا جارہا ہے ، کیا انہیں واقعی مکمل کردیا گیا ہے ،یا ہنوز ادھورے پڑے ہیں ۔ اس طرح عوامی مانیٹرنگ سے یہ عظیم منصوبہ مکمل کرینگے تو آپ کو بھی یک گونہ اطمینان حاصل ہوگا۔لیکن اگر یہ سارا ریکارڈ فائلوں میں رہنا ہے ،تو پھر کون جانے کہ کسی اسکول میں کیا کمی تھی، او رآپ کی حکومت نے اسے پورا کیا یا نہیں کرسکی؟ بہرطور وزیراعلیٰ نے میرے مشورے کو تب تو درخورِ اعتناء نہ سمجھا اور یوں مورخ کو معلوم نہ ہوسکا کہ پڑھا لکھا پنجاب کا منصوبہ کیا تھا ؟کس اسکول میں کیا ضرورت تھی اور اسے کس قدر پورا کیا جاسکا؟
بہرحال وزیراعلیٰ نے اپنے دیگر سرکاری منصوبوں کی طرح پڑھا لکھا پنجاب پر بھی بہت زورلگایا۔اس زور کا اندازہ تو اخبارات میں چھپنے والے اشتہارات سے ہی لگایا جاسکتا ہے ۔ وزیراعلیٰ کا یہ خدشہ تودرست ثابت نہ ہوسکا کہ ان کی حکومت پانچ سالہ آئینی ٹرم پوری نہیں کرپائے گی اور اسے تین سال ہی میں رخصت کردیا جائیگا بلکہ الٹا پہلی مرتبہ یہ ریکارڈ بنا کہ وزیراعلیٰ نے اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری کی جن میں سے چار برس تو انہوںنے پورے سکون سے حکومت کی ، آخری سال عدلیہ تحریک کی نذر ہوکر سیاسی انتشار کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اب چونکہ پرویز الہیٰ صاحب کو دوسری مرتبہ پنجاب کا تاج پہنایا گیا اور آئین کے لحاظ سے یہ ڈیڑھ سالہ ٹرم ہے ۔جبکہ عمران خان اس ٹرم کو بھی درمیان میں ہی ذبح کرنا چاہتے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ عمران خان کے مطالبات کے مقابلے میں عوامی تقاضوں کو فوقیت حاصل ہونی چاہئے اور پرویز الٰہی صاحب جن منصوبوںکی تکمیل اپنی پہلی ٹرم میں نہیں کرسکے ، انہیں اب پورا کیا جائے او ر اس کیلئے انہیں پانچ سال تک کی موجودہ آئینی ٹرم کے مطابق حکومت پوری کرنے کا موقع دیا جائے اور پھر الیکشن کے ذریعے نئی حکومت کا ڈول ڈالا جائے۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب کو پڑھا لکھا پنجاب کا منصوبہ دوبارہ لانچ کرنا چاہئے ۔ انہیں گجرات میں آئی ٹی یونیورسٹیاں بنانے کی بجائے میرے گائوں فتوحی والا کے گرلز ہائی اسکول کی ضروریات پوری کرنی چاہئیں۔ جب سے میں نے اپنے گائوں کے سکول کی حالت زار پر کالم لکھا ہے، مجھے پنجاب بھر سے بیشمار لوگوں کے فون آئے ہیں کہ صوبے بھر میں تمام پرائمری ،مڈل اور ہائی اسکولز وزیراعلیٰ کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ کسی اسکول کی بلڈنگ مکمل نہیں تو کسی میں سٹاف پورا نہیں ہے، کہیں بیت الخلاء اور پینے کاصاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ بنچ تو دور کی بات،بچے ،بچیوں کے بیٹھنے کیلئے ٹاٹ تک دستیاب نہیں ہیں۔ کمپیوٹر لیب سائنس لیب ، لائبریری کانام و نشان تک نہیں ملتا۔ بس ہرحکومت نے اپنے عوامی کارناموں کی فہرست طویل کرنے کیلئے وزیرتعلیم کے دفتر میں بیٹھے بیٹھے اسکولوں کو اپ گریڈ کردیا ہے، کسی نے گرائونڈ پر جاکر جائزہ نہیں لیا کہ ان سکولوں کی اصل ضروریات کیا ہیں اور نہ ہی ان سکولوں کو معقول بجٹ فراہم کیا گیا ہے ؟ان سکولوں میں بچے بچیوں کو صحتمند ماحول فراہم کرنے کیلئے کھیل کی گرائونڈز کا نظام بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ کیا ہی بہتر ہو کہ پنجاب کے بارے میں مونس الہٰی اپنی زبان بند رکھیں اور وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی ،جناب عمران خان کو سمجھائیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت ، سیاست سے زیادہ ضروری ہے ،الیکشن تو ڈیڑھ سال بعد کروائے جاسکتے ہیں ،تاکہ ملک کی تمام آئندہ حکومتیں اپنی آئینی ٹرم پوری کرسکیں اور اپنے اپنے عوامی فلاحی ترقیاتی منصوبوں کو پروان چڑھاسکیں۔
میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی صاحب اپنے علاقے میں آئی ٹی یونیورسٹیاں ضرور بنائیں، لیکن خدارا میرے گائوں فتوحی والا کے ایک گرلز اسکول کی تمام ضروریات بھی بقایا ایک سال کی مدت میں پورا کرگذریں ۔توتاریخ انہیں نظام الملک طوسی ثانی اور سرسید ثانی کے نام سے یاد رکھے گی۔