منگل ‘ 2جمادی الاول 1443ھ،7دسمبر2021ء

وہاڑی میں قائداعظم کے مجسمہ سے عینک چوری ہو گئی
خدا جانے یہ ہماری بدتہذیبی ہے یا جہالت کی انتہا کہ ہم شرارت یا ذلالت میں فرق نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا نشانہ کون بن رہا ہے۔ قومی رہنمائوں کے ساتھ خاص طورپر وہ بھی بانیان پاکستان کے مجسموں یا ان کی یادگاروں کے ساتھ ایسا کرنا مذاق نہیں‘ توہین ہے۔ ایسا کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں سزا دیکر ہی دوسروں کو سبق سکھایا جا سکتا ہے کہ وہ ایسی حرکت سے اجتناب کریں۔ پہلے زیارت‘ بلوچستان میں قائداعظم ریذیڈنسی جلائی گئی۔ وہاں موجود قائداعظم کے زیراستعمال اشیائ‘ نایاب تصاویر اور سامان جل کر خاکستر ہو گیا۔ بے شک یہ علیحدگی پسند قوم پرستوں کی کارروائی تھی۔ مگر شاید ہی ان میں سے کوئی قانون کی گرفت میں آسکا۔ اس کے بعد بہاولپور میںقائد کے مجسمے کی عینک چرائی گئی۔ گوادر میں ان کا مجسمہ گرایا گیا۔ کیا ایسے لوگ معافی کے مستحق ہیں جو اپنے قائد کی توہین کر رہے ہوں۔ کیا وہ پاکستانی کہلانے کے حقدار ہیں۔ اب وہاڑی میں کسی بدبخت نے بابائے قوم کو مجسمے سے ان کی عینک چرا لی کیا چوروں کو قائد کی عینک سے زیادہ محبت ہو گئی ہے کہ اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ یہ کیسی شرارت ہے۔ کوئی باشعور قوم اس طرح اپنے قائد اپنے بانی کی توہین نہیں کرتی جیسے ہم کر رہے ہیں۔ کسی نے عقیدت سے ان کا چشمہ تو اتارا نہیں ہوگا کہ نشانی کے طورپر ساتھ رکھے۔ اب حکام سکیورٹی کیمرے میں ایسا کرنے والوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ اگر یہ نالائق قابو میں آجائیں تو ان سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔
٭٭……٭٭
پیپلزپارٹی نے نیا جنم لیا ہے‘ آصف زرداری: پرویز اشرف
تو پھر جناب مبارک ہو ان دونوں کو پی پی کا یہ نیا جنم۔ ان لوگوں نے حیرت انگیز طورپر لاہور سے پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم گل کو ملنے والے 32,313 ووٹوں پر بے پناہ مسرت کا اظہار کیا ہے۔ وہ قابل دید ہے کیونکہ خود انہیں بھی امید نہیں تھی کہ لاہور میں پیپلزپارٹی اتنے ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کی بدقسمتی رہی کہ اس کے نوٹ دیکر ووٹ خریدنے کی ویڈیوز جعلی ہی سہی‘ سوشل میڈیا پر چلیں مگر پی پی نے جس طرح حلقہ 133 میں ’’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘‘ کی عملی کارروائیاں کیں۔ اس پر بھی سب کی نظر ہے مگر اس کی کسی نے ویڈیو وائرل نہیں کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب حکومت نے پی پی پر ہتھ ہولا رکھا ہے اور مسلم لیگ (ن) کو نیچا دکھانے کیلئے اندرون خانہ کھلاڑیوں نے تیر کو ووٹ ڈالے تاکہ شیر کو ہرایا جا سکے مگر بلے کی کوشش زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔ البتہ تیر کے ووٹوں میں خوب اضافہ ہو گیا جس سے خود اسلم گل بھی حیران ہونگے کہ یہ ووٹ کہاں سے آ ئے۔ بہرحال اب مسلم لیگ (ن) کو جیت مبارک ہو۔ رہی بات کم ٹرن آئوٹ کی تو ضمنی الیکشن میں ایسا ہی ہوتا ہے جو ایک المیہ ہے۔ کھیل میں ہار جیت اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے زیادہ لوگ سوچتے نہیںاس لئے سب کہہ رہے ہیں کہ لاہور نے ایک بار پھر شیر کے حق میں فیصلہ دیدیا جو اب خوشی سے دھاڑ رہا ہے۔ جبکہ حکومتی ترجمان اسے بے جان کامیابی قرار دیتے نہیں تھکتے۔
٭٭……٭٭
حقوق حاصل کرنے کیلئے بھارتی کسانوں جیسی قربانی دینا ہوگی: فاروق عبداللہ
ایسے بیان دیکر یہ زاغ خود کو عقاب ثابت نہیں کر سکتا۔ سارا کشمیر جانتا ہے کہ ’’زاغوں کے تصرف میں ہے عقابوں کا نشیمن‘‘ شیخ خاندان ایک مکار اور چالاک خاندان ہے جس نے طویل عرصے سے کشمیری عوام کو بے وقوف بنا کر غلامی کی کڑی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ شیخ عبداللہ کی ذاتی شخصیت کا سحر تھا کہ اس نے کشمیر کو اپنی ظاہری بہادری اور نہرو سے دوستی کے بل بوتے پر بھارت کے ساتھ زبردستی جوڑے رکھا اور انہیں بھارت کا غلام بنا دیا۔ اس کے بعد یہی کام اس کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کیا اور بڑی ڈھٹائی سے خود کو ہندو معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش جاری رکھی اور بھارتی مال و مراعات حاصل کرتا رہا۔ اب یہی کام اس کا بیٹا عمر عبداللہ بھی بھارتی نمک حلال کرنے کیلئے کرتا پھر رہا ہے۔ آج بے ضمیر بھارت کے کرائے کے ٹٹو کس منہ سے اپنے مقصد کے حصول کیلئے بھارتی کسانوں کی مثال دے رہے ہیں۔ بھارتی کسانوں کا مقصد واضح تھا۔ وہ سر ہتھیلی پہ لیکر میدان میں نکلے۔ یہ چوری کھانے والے مجنوں ہیں‘ کیا ان میں حوصلہ ہے کہ بھارت سے آزادی یا علیحدگی کیلئے برسر میدان نکل کر کشمیری قوم کی قیادت کریں۔ نہیں ایسا یہ غدار کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی ساری جدوجہد اور شعلہ بیانی صرف اور صرف بھارت کی غلامی میںحکومت حاصل کرنے کیلئے ہے۔ انہیں کشمیر کی آزادی سے کوئی دلچسپی نہیں جو پوری قوم کی آواز ہے‘ مطالبہ ہے۔ یہ صرف الیکشن لڑنے اور حکومت سنبھالنے کے چکروں میں ہیںاور اپنے اس مکرہ مقصد کیلئے قربانی عوام سے مانگتے ہیں۔ خود کیوں نہیں پھانسی چڑھتے۔ عوام تو پہلے ہی آزادی کے لئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔
٭٭……٭٭
ڈھاکہ کرکٹ ٹیسٹ: تیسرے دن کا کھیل بھی بارش کی نذر ہو گیا
لگتا ہے بنگلہ دیش کا موسم اپنی کرکٹ ٹیم کی مدد کر رہا ہے جبھی تو ڈھاکہ میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں کبھی روشنی کی کمی آڑے آجاتی ہے‘ کبھی بارش آکر کھیل روک دیتی ہے۔ دو سیریز پر مشتمل اس سیریز میں پاکستان پہلے ہی ایک میچ جیت چکا ہے۔ اب یہ دوسرا میچ ہے۔ اس میں بھی پاکستانی ٹیم کی پوزیشن مضبوط لگ رہی تھی مگر موسم نے آکر سارا کھیل بگاڑ دیا اور اب یہ میچ ڈرا کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ تین دن میں کھیل جم کر کھیلا نہیں جا سکا۔ باقی دو دن بھی ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ کھیل جاری رہ پائے گا۔ یوں امکان یہی ہے کہ یہ سیریز پاکستان صفرکے مقابلے میں ایک ٹیسٹ سے جیت جائے گا۔ پاکستان کی موجودہ ٹیم کیلئے یہ اچھا موقع رہا کہ اسے ون ڈے‘ ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ سیریز کھیلنے کا موقع ملا اور اس کی خوبیاں اور خامیاں سامنے آئی ہیں۔ اب ہر کھلاڑی اپنی کمزوری پر قابو پانے کی کوشش کرے تاکہ بیرون ملک ان کے کھیل میں بہتری آئے۔ اس دورہ بنگلہ دیش میں جو سب سے اچھی بات سامنے آئی‘ وہ ہے بنگلہ دیشی عوام کا کرکٹ کے شائقین کا ردعمل۔ اس بار ماضی کے برعکس ہمارے بنگالی بھائیوں نے دل کھول کر پاکستانی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کے چوکے چھکوں اور وکٹ لینے پر ان کو بھرپور داد دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوری اور نفرت کے بادل چھٹنے لگے ہیں۔ بھارتی مکروہ منفی پراپیگنڈا آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے۔ڈھاکہ سمیت بنگلہ دیش کے دوسرے شہروں میں پاکستانی پرچموں کا لہرانا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
٭٭……٭٭