لاہور ضمنی انتخاب: سیاسی جماعتوں کو سبق سیکھنا چاہیے

پاکستان میں عوامی نمائندگی کے لیے کسی بھی سطح کے انتخابات ہوں ان کا پُر امن انعقاد ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات عام ہے کہ دنیا کے باقی ممالک اور خطوں کی طرح یہاں انتخابات میں جیت اور ہار نہیں بلکہ جیت اور دھاندلی ہوتی ہے یعنی جو بھی ہار جاتا ہے اس کی طرف سے ہار تسلیم نہیں کی جاتی اور الزامات لگائے جاتے ہیں کہ اسے دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا ہے۔ اس رویے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں انتخابی نظام میں کئی قسم کی پیچیدگیاں موجود ہیں جو نہ صرف اس نظام کو مشکوک بناتی ہیں بلکہ اس میں دھاندلی اور جعل سازی کے مواقع بھی پیدا کرتی ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ اس نظام کو بہتر اور شفاف بنانے کے لیے جن جماعتوں اور اداروں نے مل کر کام کرنا ہے ان کے درمیان بیشتر معاملات پر اتفاق نہیں پایا جاتا، لہٰذا گزشتہ پانچ دہائیوں سے انتخابی نظام میں پائی جانے والی خرابیاں اور پیچیدگیاں جوں کی توں ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے انتخابی نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے جس کا ثبوت لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 میں ہونے والے ضمنی انتخاب کا ٹرن آؤٹ ہے جو تقریباً ساڑھے اٹھارہ فیصد رہا، یعنی اس حلقے کے رائے دہندگان کی غالب اکثریت نے کسی بھی سیاسی جماعت یا امیدوار کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ اسے اپنی نمائندگی کا حق دیں۔
قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما ملک پرویز کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی نشست پر ہونے والے مذکورہ ضمنی انتخاب کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی امیدوار شائستہ پرویز ملک نے 46811 ووٹ حاصل کیے اور ان کے مد مقابل پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل کو 32313 ووٹ ملے۔ یوں شائستہ پرویز ملک تقریباً ساڑھے چودہ ہزار ووٹوں کی برتری سے فاتح قرار پائیں۔ شائستہ پرویز ملک اور اسلم گل نے اپنی جماعتوں کے روایتی انتخابی نشانات پر ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ ضمنی انتخاب کے لیے کل 21 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے جن میں سے 7کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے، تین نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے اور 11 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ دیگر امیدواروں کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے جمشید اقبال چیمہ اور مسرت جمشید کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے۔
این اے 133 میں ضمنی انتخاب کے لیے کل 254 پولنگ سٹیشنزتھے جن میں مردوں اور خواتین کے سو سو پولنگ سٹیشنز بنائے گئے اور 54 مشترکہ پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے۔ ان میں سے 24 پولنگ سٹیشن حساس اور 21 انتہائی حساس قرار دیے گئے تھے۔ اس موقع پر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے اور رینجرز، ڈولفن، پولیس رسپانس یونٹ (پیرو) اور کوِک رسپانس فورس (کیو آر ایف) کے دستے سارا دن گشت کرتے رہے۔ اقوام متحدہ کے وفد نے بھی پولنگ سٹیشن نمبر43، 44 اور 45 کا دورہ کیا۔ پولنگ سٹیشنز کے باہر قائم امیدواروں کے پولنگ کیمپس پر مسلم لیگ ن کے پولنگ کیمپوں پر ووٹرز کا رش زیادہ رہا تاہم پیپلزپارٹی کے کیمپس پر نسبتاً کم رہا۔ این اے 133 کے ایک پولنگ سٹیشن میں شہری موبائل لے کر گھس گیا اور سیلفیاں، ووٹ پر مہر لگانے کی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرتا رہا۔ اطلاع ملنے پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر (ڈی او آر) نے ووٹر کا پولنگ سٹیشن پر موبائل فون سے تصویر لینے والے معاملے کا نوٹس لے لیا اور متعلقہ حکام کو فوری طور پر مذکورہ ووٹر کی شناخت کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ ڈی آر او نے کہا کہ موبائل سے فوٹو لینے والے ووٹر کو زیر حراست لے کر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے این اے 133میں واضح برتری پر عوام اور پارٹی رہنماؤں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ حلقہ کے عوام کی جانب سے ہمیشہ کی طرح مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کے اظہار پر شکر گزار ہیں۔ واضح برتری پر شائستہ پرویز ملک کو مبارک پیش کرتا ہوں۔ دوسری جانب، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے لاہور کے حلقہ این اے 133میں شاندار نتائج پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو مبارکباد دی ہے اور کہا ہے کہ لاہور کا ضمنی الیکشن پیپلز پارٹی کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے لاہور میں نیا جنم لے لیا ہے جو پنجاب میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔
ضمنی انتخاب میں دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین کا اپنے امیدواروں اور کارکنوں کو مبارک باد اور شاباش دینے کا معاملہ تو اپنی جگہ ہے لیکن اس انتخاب میں انتہائی کم ٹرن آؤٹ ہماری سیاسی جماعتوں کے واقعی لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔ اگر عوام کا سیاسی عمل اور انتخابی نظام سے اعتماد پوری طرح ختم ہوگیا تو یہ تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوری اداروں کی ناکامی ہوگی۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور انہیں عوام کے حقیقی مسائل پر غور کرتے ہوئے ان کا مستقل اور پائیدار حل فراہم کرنا چاہیے۔ محض سیاسی بیانات اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے نہ تو عوامی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی اس سے جمہوریت کو فروغ ملے گا۔