ہفتہ‘ 9؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 7؍ دسمبر 2019ء
چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہونے سے بحران نہیں، آئینی خلا پیدا ہو گا۔ بابر اعوان
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان نے گزشتہ روز جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی ہونے سے بحران نہیں آئینی خلا پیدا ہو گا اور اس کی ذمہ داری شہباز شریف پر ہو گی۔ ہمیں آج پتہ چلا ہے کہ بحران کے سامنے آئینی خلاکی تو کوئی حیثیت نہیں، ورنہ ہم آج تک خلا کو بحران سے زیادہ سنگین سمجھتے رہے ہیں۔ شکر ہے کہ دیر سے ہی سہی مگر آج ہمیں اپنے غبی ہونے کا پتہ چل گیا اور خصوصاً ان لوگوں کی دانش کی قلعی کھل گئی جو ہمیں اس کے برعکس بتاتے رہے۔ افسوس کہ ہمیں آج تک کوئی کامل اُستاد نہ ملا۔ لے دیکر جغرافیہ کے اُستاد تھے، خدا مغفرت کرے منشی عبدالغفار۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ انہوں نے ہمیں پڑھاتے ہوئے خلا کے معنی یہ بتائے کہ جب ماحول میں خلا پیدا ہوتا ہے تو آندھی آ جاتی ہے۔ بعض اوقات آندھی طوفان بن جاتی ہے۔ بڑے بڑے تناور درخت اُکھڑ جاتے ہیں۔ ممٹیاں گر جاتی ہیں، کماد اور مونجی کے کھیت لیٹ جاتے ہیں اور کمزور چھتیں اُڑ جاتی ہیں۔ ہمیں درختوں کے اُکھڑنے ، ممٹیوں کے گرنے اور کھیتوں کے لیٹ جانے سے تو کوئی خاص خوف نہ آیا، البتہ چھتوں کے اُڑنے کی بات سُن کر ہمارے ہوش اُڑ گئے، وجہ یہ تھی کہ ہماری اپنی چھت بھی کمزور تھی۔ منشی جی نے بتایا کہ جب طوفان اور زور کی آندھی آتی ہے تو گندم کے کھیتوں میں پیدا ہونے والے خود رو خاردار پودے پوہلی کے اُڑنے کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔ خلاء کی تعریف میں اور بھی بہت کچھ بتایا لیکن اُس زمانے میں صرف خلا ہوتا تھا۔ بحران نام کی کوئی شئے نہیں ہوتی تھی یا کم از کم ہم نے اور کچھ بعید نہیں کہ منشی جی نے بھی یہ نام نہ سنا ہو۔ ورنہ عین ممکن ہے کہ خلا اور بحران کا تقابل پیش کرتے ہوئے کہہ دیتے کہ خلا میں بحران کا وہ حال ہوتا ہے جو تیز آندھی یا طوفان میں پوہلی کا ہوتا ہے۔ جہاں تک شہباز شریف کی ذمہ داری کا تعلق ہے، لگتا ہے موصوف بھی ’’خلا بڑا یا بحران‘‘ کی ترکیب سے آشنا نہیں۔
٭٭٭٭
کشمیریوں کی حالت زار پر دُکھ، پاکستان دوسرا گھر ہے۔ چیئرمین سعودی شوریٰ کونسل
سعودی شوریٰ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ بن محمد ابراہیم الشیخ ایک وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ اس موقعہ پر انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے اور کشمیریوں کی حالت زار پر دُکھ ہے۔ مسلم ملکوں کی تعداد 56 ہے۔ ان میں عرب لیگ کے ملکوں کی تعداد 21 ہے۔ مقبوضہ کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے، جس کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے اور گزشتہ ستر سال سے بھارت کے چنگل میں بُری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ مودی سرکاری نے /5 اگست کو بھارتی آئین سے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دی جانے والی دفعات منسوخ کر کے کرفیو لگا رکھا ہے، 125 دن ہو گئے ہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کو گھروں میں نظر بند کر رکھا ہے اور تمام اطلاعاتی رابطے کاٹ دئیے ہیں۔ کشمیری دُنیا کے سوا ارب مسلمانوں کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں لیکن سب نے کان بند کر رکھے ہیں۔ 56 ملک تو بہت بڑی بات ہے۔ اگر عرب لیگ کے ایک تہائی ارکان بھی کشمیریوں کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں تو بھارت کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ آج کل معیشت ، ایٹم بم سے بھی قوی ہتھیار ہے۔ اگر یہ ممالک بھارتی صنعتوں سے اپنا پیسہ ہی نکال لیں تو بھارت کی معیشت دھڑام سے نیچے آگرے اور بھارتی حکمرانوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ لیکن ایسی توقع عبث ہے البتہ بیانات ایسے ایسے آ رہے ہیں کہ پڑھ کر رقت اور وجد طاری ہو جاتا ہے۔
٭٭٭٭
سی ایس ایس امتحان کے لیے عمر کی حد 30 سے کم کرکے 28 سال کرنے کی تجویز
پچھلی حکومت نے -30 جولائی 2016ء کو امیدواران سی ایس ایس کی عمر کی بالائی حد میں دو سال کی توسیع کی تھی۔ توسیع کے تحت تیس سال کی عمر کے امیدواروں کو بھی سی ایس ایس امتحان کیلئے اہل قرار دیا گیا تھا۔ اب سرکاری ملازمین کیلئے بھی اس امتحان کیلئے عمر کی حد میں چار سال کمی کی تجویز زیر غور ہے، یعنی 32 سے کم کرکے 28 سال کر دی جائیگی۔ اس ردوبدل میں کیا حکمت یا مصلحت ہے، اسکی وضاحت نہیں کی گئی لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بے شمار ذہین بلکہ نابغہ قسم کے نوجوان خون کی خدمات سے محروم رہ جائیگی، ذرا آج کا نظام تعلیم ہی دیکھ لیجئے ، بچے ماسٹر کرتے کرتے سی ایس ایس امتحان کیلئے اوورایج کے زمرے میں چلے جائینگے۔ یوں عمر کی حد میں کمی کا دوسرا مطلب لاکھوں لائق فائق اور مستحق نوجوانوں کی اُمنگوں اور آرزوئوں اور خوابوں کا خون کرنا ہے۔ موجودہ دورمیں تو ہمیں ’’برین‘‘ کی ضرورت ہے نہ کہ اسے دائرۂ عمل میں آنے سے روکنے کی۔ ویسے بھی ضروری نہیں کہ ہم ’’ہر کہ آمد عمارتِ نوساخت‘‘ کو ہر کام کا اصول بنا لیں۔
٭٭٭
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پھر چوہوں کی بازگشت‘ لائبریری میں پانی ٹپکنے لگا۔ چوہوں نے ارکان کا سکون حرام کررکھا ہے۔
قومی اسمبلی میں جہاں قوم کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں‘ انکے مسائل حل کرنے پر بحث کی جاتی ہے‘ قوم کو خوشحال اور مطمئن کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں‘ جب وہاں صرف اپنے مفادات کی جنگ لڑی جائیگی اور اسمبلی کے فلور کو اپنی بے گناہی کے ثبوت فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا جائیگا تو قوم کی آہ پر چوہوں کے ذریعے ہی سہی‘ سکون تو حرام ہوگا۔ قوم انہیں منتخب کرکے اسمبلیوں میں اس لئے بھجتی ہے تاکہ انکے مسئلے مسائل حل ہوں‘ بدقسمتی سے پچھلے تین برس سے اسمبلی کے فلور پر کبھی عوامی مسائل پر بحث نہیں کی گئی اور نہ ہی انکے مفاد کی بات کی گئی جبکہ اپنی مراعات بڑھوانے اور تنخواہوں میں اضافہ کی قراردادیں دھڑا دھڑ اتفاق رائے سے منظور کرلی جاتی ہیں۔ چلیں عوام کا جہاں بس نہیں چلتا وہاں چوہوں نے وہ کام کردکھایا۔ محترم اراکین کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ جس طرح چوہوں نے ان کا سکون برباد کیا ہوا ہے‘ اسمبلی میں انکی کارکردگی سے عوام اس سے کہیں زیادہ پریشان حال ہیں۔
لائبریری علم کا خزانہ ہوتی ہے‘ لگتا ہے کہ ہمارے اراکین نے کبھی اس لائبریری کا رخ ہی نہیں کیا‘ جس پر آج لائبریری بھی آنسو ٹپکا رہی ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسی کتاب نہیں کھولی ہوگی جس میں قائد و اقبال نے جس خوبصورت فلاحی پاکستان کا خواب دیکھا تھا‘وہ آج کس حال سے گزر رہا ہے۔ بہرحال اراکین ان چوہوں سے برباد ہونیوالے سکون کو قدرت کی تنبیہہ سمجھیں۔ بعید نہیں کہ اگر نمائندوں نے حق نمائندگی ادا کرنا شروع کیا تو چوہے خود ہی بھاگ جائیں مگر یہ پارلیمنٹ کی عمارت کے منتظمین چوہے مار گولیاں یا پنجرے دینے سے تو رہے۔ اللہ خیر کرے‘ اب چوہوں کو مارنے کی قرارداد اسمبلی میں نہ پیش ہو جائے کیونکہ ہمارا اب ہر کام قراردادوں کے ذریعے ہی انجام پاتا ہے۔