کیا سٹوڈنٹس یونین بحال ہونی چاہئیں؟

پاکستان کے طلباء نے طویل عرصے کے بعد پُرامن مارچ کرکے کے اپنی تمناؤں اور خدشات کا اظہار کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ اس مارچ کو استحصالی اشرافیائی اور آقاقی نظام کے ردعمل کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان کے طلباء تشویشناک کرپشن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ قبل اس کے کہ یہ تحریک ایک لاوے کی صورت اختیار کرجائے حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر یہ مسئلہ آئین اور قانون کے مطابق حل کر دینا چاہیے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو اپنی فوج قرار دیا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران اور خاص طور پر 1946ء کے انتخابات میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے تاریخ سازخدمات انجام دیں لہٰذا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ قیام پاکستان میں طلباء نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا یہ کردار آزادی یعنی قومی نصب العین کے سلسلے میں تھا مگر جب پاکستان قائم ہوگیا تو قائداعظم نے 18 اپریل 1948ء کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔
"You will be making the greatest mistake if you allow yourself to be exploited by one political party or another your main occupation should be in fairness to yourself to your parents and to your state devote your attention to your studies"
مفہوم" اگر آپ کسی ایک سیاسی جماعت یا دوسری سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں استعمال ہوئے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہو گی۔ آپ کا اولین فرض ہے کہ آپ اپنے آپ سے اپنے والدین سے اور ریاست سے خلوص اور وفاداری کا مظاہرہ کریں اور اپنی پوری توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز رکھیں"۔
افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا نے کہا کہ اگر یونیورسٹیوں میں طلباء متحرک اور فعال نہ رہیں تو قومیں زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں خاص طور پر طلباء نے جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف یادگار تحریک چلائی۔ جس میں طلبہ کی تنظیم این ایس ایف ہراول دستہ تھی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سیاسی بنیادوں پر جو طلبا یونین بنائی گئیں اور انتہا پسندی اور تشدد کا مظاہرہ کیا گیا وہ تاریخ کا ڈراؤنا خواب ہے۔ لہٰذا ہمیں ان سنگین غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور طلبا تنظیموں کو ایسی آزادی دینی ہے جو آئین کے مطابق ان کا حق ہے البتہ اس آزادی کو پاکستان کے طلباء تعلیمی اداروں اور ریاستی مفادات کے ساتھ جوڑنے کے لیے ایک ضابطہ اخلاق تیار کرنا پڑے گا اور تعلیمی اداروں کے اندر سیاسی جماعتوں کی مداخلت کو مکمل طور پر بند کرنا پڑے گا۔ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ سامراجی ممالک اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے مختلف ملکوں کے نوجوانوں اور طالبعلموں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ سی آئی اے نے چین میں طلبہ کو انسانی حقوق کے نام پر حکومت کے خلاف اشتعال دلایا اور طلباء احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے جسے اس وقت کی چینی قیادت نے کچل کر رکھ دیا اور سی آئی اے کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ پاکستان کے طلباء کو قومی سلامتی اور آزادی کی خاطر ان سامراجی ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنا ہوگا تاکہ پاکستان انتشار افراتفری اور عدم استحکام کا شکار نہ ہونے پائے اور سامراجی ممالک اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ طلبہ اور سیاسی کارکن معصوم ہوتے ہیں اور معصومیت میں دوسروں کے مفادات کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں طلبہ کو مشاورت سے فیصلے کرنے چاہئیں اور سامراجی ملوکیت کے آلہ کاروں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔
پاکستان کے طلباء کی پر امن ریلیوں کے دوران لال لال سرخ سرخ کے جو نعرے لگائے گئے ہیں، وہ تاریخی تناظر میں مناسب نہیں ہیں۔ دنیا کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں سرخ اور سبز کی معرکہ آرائی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ اس معرکہ آرائی کے بعد 1973ء کا متفقہ آئین تیار کیا گیاجس میں سبز آئین کے آرٹیکل نمبر دو میں شامل ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہو گا۔ جبکہ سرخ آئین کے آرٹیکل نمبر 3 میں شامل ہے کہ استحصال کی ہر صورت کو ختم کر دیا جائے گا اور ہر ایک سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔ پاکستان کے طلباء قدامت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اپنی سرگرمیوں کو آئین اور قانون کے مطابق رکھیں اور مہم جوئی سے گریز کریں۔ ہر شہری کے لیے سوشل سکیورٹی کو اپنا نصب العین بنائیں اس سے زیادہ مزدور اور کسان کی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کو بنیادی حقوق حاصل ہو جائیں جو آئین میں درج ہیں۔ تعلیمی درسگاہوں کو مثالی اور معیاری بنانے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ان کی سرگرمیاں کسی صورت بھی ریاست اور تعلیمی اداروں کے مفادات کے منافی نہیں ہونی چاہئیں۔ طلبہ بھی ذہانت اور بلوغت کا ثبوت دیں اور ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے آگے کی جانب بڑھیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے طلباء کے آئینی اور جائز مطالبات سے اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دیں جو طلبہ سے مشاورت کرکے ایسی قانون سازی اور ضابطہ اخلاق تیار کرے جس کی روشنی میں طلباء کی سرگرمیوں کو طلباء کے اپنے مفاد تعلیمی اداروں کے وقار اور ریاستی مفادات کے کے اندر رکھا جا سکے۔ طلباء کا یہ آئینی اور جمہوری حق ہے کہ وہ تعلیمی معیار تعلیمی سہولتوں تعلیمی فیسوں کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں اور مباحثوں کی صورت میں اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کر سکیں۔ تاکہ وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد سیاست کے میدان میں مثالی اور معیاری کردار ادا کرنے کے قابل بن سکیں۔ تاریخ کے پہیہ کو ماضی کی جانب نہیں پھیرا جاسکتا ، تاریخ نے آگے ہی بڑھنا ہے لہٰذا سرخ اور سبز کی بے مقصد و بے معنی بحثوں میں نوجوانوں کو نہیں پڑنا چاہیے۔ پاکستان اللہ کے فضل سے معاشی طور پر ٹیک آف کی پوزیشن پر کھڑا ہے ترقی کے امکانات بڑے روشن ہیں، ان حالات میں ریاست کسی قسم کی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمات دائر کرنے سے غصہ اور اشتعال پیدا ہو گا۔ حکومت طلبا کو سٹوڈنٹس یونین بنانے کی مشروط اجازت دے تاکہ وہ آئین کے مطابق اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ حکومت اس سلسلے میں تاخیری حربوں سے گریز کرے اور سٹوڈنٹس یونین کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔
٭…٭…٭