بارہ کروڑ حمایتی
ہر کسی کو اپنے مذہب سے والہانہ لگائو ہوتا ہے اسی طرح سکھ بھی اپنے مذہب سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔وہ پون صدی سے بھارت کے بارڈر سے اپنے مذہبی پیشوا بابا گرونانک کے مزار، کرتارپور ناروال کو ایک دور بین سے دیکھ کر اپنے مذہب سے لگائو کی پیاس بجھایا کرتے رہے ہیں۔بابا گرو نانک نے اس جگہ اپنی زندگی کے آخری ۱۸؍ سال گزارے تھے۔وہ اس جگہ کھیتی باڑی کرتے اور اپنی ماننے والوں کو تلقین کیا کرتے تھے’’ کرت کرو،نام جپو اور ونڈھ کے کھائو۔یعنی محنت کرو اللہ کا نام لو اور آپس میں تقسیم کر کے کھائو۔ہندو خاندان سے ہونے کے باوجود، بابا گرو نانک توحید پرست انسان تھے۔ مسلمان بھی ان سے محبت کرتے تھے جب وہ فوت ہوئے تو مسلمان اُنہیں دفنانا چاہتے تھے اور سکھ جلانا چاہتے تھے۔ بابا گرو نانک کاناروال کرتار پور دریائے راوی کے کنارے کھیتی باڑی کرنے کی جگہ پر ۲۲؍ ستمبر ۱۵۳۹ء کوانتقال ہوا تھا۔ راوی دریا کے کنارے کرتار پورناروال میں ہی گرونانک کامزار واقع تھا۔ تاریخی طور پر یہ بات سامنے آئی کہ بابا گرونانک کے پہلے مزارکودریائے راوی کا پانی بہا کر لے گیا تھا ۔ پھر پٹیالہ کے ایک راجہ نے اس موجودہ مزار کو تعمیر کر کے باباگرونانک کی یادگارقائم کی تھی۔یہ مزار گرداس پور، بھارت کی سرحد سے پاکستان کے اندر چار میل کے فاصلے پرناروال کرتار پورمیں واقع ہے۔ مسلمان جیسے مدینہ سے محبت رکھتے ہیں اسی طرح سکھ بھی اس جگہ سے محبت رکھتے ہیں۔ گرداس پوروہی علاقہ ہے جسے انگریز اور ہندوئوں کی سازش سے پاکستان میں شامل کرنے کے بجائے بھارت میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اس طرح بھارت کو کشمیر جانے کے لیے واحد زمینی راستہ فراہم کیا گیاجس کی وجہ سے بھارت نے تقسیم کے وقت سے مسلمان کے اکثریتی علاقے جموں و کشمیر پر
قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہندوئوں اور انگریزوں نے مسلمان دشمنی میںتقسیم کے متفقہ فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کام کیا تھا۔ سکھوں کے سارے مذہبی مقامات پاکستانی پنجا ب میں ہیں۔ مثلاً بابا گرونانک کی جائے وفات اور مزار، کرتار پورناروال، پنجہ صاحب حسن ابدال، گرونانک کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب، ننکانہ جس کا پرانا نام تلونڈی تھا۔ شاید اسی لیے قائد ا عظم ؒ نے تقسیم کے وقت سکھوں کی سیاسی لیڈر ماسٹر تارہ سنگھ کو پاکستان میں شامل ہونے کی پیش کش کی تھی مگر تارہ سنگھ نے تاریخی غلطی کرتے ہوئے سیاسی ضرورت کے تحت اس مقدس ترین مذہبی پیش کش کو قبول نہیں کیاتھا‘ بعد میں اس کو پچھتاوا بھی ہوا تھا۔ ہندئو لیڈر شپ نے اپنی چانکیا کوٹلیا مکرانہ چالوں کو استعمال کرتے ہوئے تقسیم کے وقت پنجاب کے مسلمانوں پر سکھوں کو استعمال کر کے حملے کروائے تھے جو تاریخ کا ایک سیاہ ترین دور ہے جسے صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ پھر بھارت کے سکھوں نے ہندوئوں کی زیادتیوں اور تنگ نظری کے خلاف کشمیر کے مسلمانوں اور بھارت کی دوسری قوموں کی طرح بھارت سے علیحدگی کا اعلان کر دیااور آزاد خالصتان کی تحریک شروع کی۔ اس تحریک میں نمایاں نام سنت جرنیل سنگھ بھنڈروالہ کا تھا۔ جسے بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور حکومت میں آپریشن بلیو اسٹار میں گولڈن ٹمپل امرتسر پر فوج کشی کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔بعد میںبھارتی فوج کے سربراہ اوروزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم نہرو، جس نے کشمیریوں سے اقوام متحدہ میں ساری دنیا کو گواہ بنا کر وعدہ کیا تھا کہ ان کو اپنی آزاد رائے کاموقعہ دے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ ۔ اس وعدے پر عمل نہ کر کے نہروبین الاقوامی طور پر وعدہ خلاف ثابت ہوا۔ اس کی بیٹی اور بھارت کی وزیر اعظم، اندرا گاندھی نے بھی تاریخی ظلم کر کے سکھوںکے مقدس اور مذہبی مقام گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کر کے سنت جرنیل سنگھ بھنڈروالہ کو ہلاک کیا تھا۔ اس وقت سے سکھ قوم بھارت کے خلاف ہو گئی۔ متعصب ہندو مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد،جسے مغل بادشاہ ظہیر الدن بابر نے تعمیر کروایا تھا اس کو بھی ۱۹۹۲ء میں مسمار کر دیا ۔ جب ہند دئوں کی متعصب دہشت گرد اور کٹر مذہی تنظیم، راشٹریہ سیونگ سنگھ( آر ایس ایس) کے بنیادی رکن مودی بھارت کے وزیراعظم بنے ہیں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔مسلمانوں کومذہبی عبادات سے روکا جاتا ہے‘ اذان پر پابندی لگائی جاتی ہے‘ مسلمانوں کو سر ڈھانپنے کے لیے ٹوپی پہننے سے روکا جاتا ہے‘ گائے کا گوشت کھانے کے شک میں مسلمانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے‘ مسلمانوں کو زبردستی اپنا مذہب اسلام چھوڑ کر ہندو بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں ہندو بن کے رہو یاپاکستان چلے جائے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قوموںکی جنگ آزادی کو مانا گیا ہے۔ بھارت کشمیریوں کی پر امن جنگ کو دہشت گردی کہتا ہے۔کشمیر کے بارڈر پر آہنی باڑلگا دی ہے اس میں بجلی کا کرنٹ چھوڑا ہوا ہے۔ بھارتی فوجی اس پر ۲۴ گھنٹے پہرہ دیتے ہیں۔پھر بھی کشمیری نوجوانوں کو اگر وا دی کہہ کر ہلاک کر رہا ہے۔ کشمیریوں کی درجنوں اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ پاکستان پر دبائو ڈالا جاتا کہ وہ کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی مدد بھی بند کر دیں۔ پہلے مشرقی پاکستان میں قوم پرستوں کی تنظیم مکتی باہنی بنا کر پاکستان کے خلاف دہشتگردانہ کارروائیاں کروائیں۔ پھر اپنی باقاعدہ فوج داخل کر کے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کر دیا۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کو ذبح کیا جارہا ہے۔ کشمیریوں کی جنگ آزادی کشمیر کی عظیم تحریک پر سے دنیا کی نظریں ہٹانے کے لیے پاکستان کے علاقے ، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں علانیہ دہشت گردی کروا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے موجودہ حکمران وزیر اعظم نے مدبرانہ فیصلہ کر کے بھارت کی سیاست میں ڈہنٹ ڈالنے کے لیے ایک عظیم کام کیا۔ بھارت کے بارہ کروڑ سکھوں کے مذہبی رجحانات کا خیال کرتے ہوئے ان کے لیے پون صدی سے بند راستہ کرتار پور کرویڈورکھولنے کا اعلان کر دیا جس سے بھارت کی سیاست میں بھونچال آ گیا۔بھارت نے اس مشترکہ انسانی ایونٹ میں شریک نہ ہو کر ایک طرف اپنی سکھ آبادی کو ناراض کرلیا دوسری طرف دنیا میں بھی بدنا م ہوا۔بھارت کے بیس کروڑ مسلمان متعصب بھارت کے مظالم سے تنگ آ کرپہلے ہی سے پاکستان کے حمایتی تھے تو عمران خان کی کامیاب ڈپلومیسی نے بھارت میں بارہ کروڑ سکھوں کی حمایت کا اضافہ بھی کر دیا۔سابق بھارتی کرکٹر بھارتی پنجاب ریاست کے وزیر سیاحت سدھو پاکستان کے سفیر بن کر اُبھرے اور اب کشمیر کے بعد بھارتی ریاست راجھستان میں نوجوت سنگھ سدھو کے جلسے میں بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی اپوزیشن عمران خان دشمنی میں کہتی پھرتی ہے کہ عمران خان نے اپنے پہلے سو دنوں میں کیاکیا؟ عقل و دانش رکھنے والے پاکستانی حلقے تو کہتے ہیں کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے پرپاکستان میں کئی سالوں کے بعد فوج ، عدلیہ اور سیاست ایک پیج پر آئی ہیں۔ عمران خان حکومت کے پاکستان کوکرپشن فری کرنے اور لوٹے ہوئے پیسے کو واپس لانے کے لیے ۲۲ سے ۲۵ ملکوں کے ساتھ معاہدے ہو چکے ہیں۔ حرمت رسولؐ کے لیے ملکوں سے معاہدے کے لیے اپنا نمائندہ مقرر کر دیا ہے۔امریکی مفادات کی جنگ سے ا علانیہ علیحدگی کااعلان اور برابری کی سطح پر تعلقات عمران خان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے۔پاکستان کی سابقہ کسی بھی حکومت کی بھارت کے خلاف سیاسی حکمت عملی سے اکیلی عمران خان کی بھارت خلاف سیاسی حکمت عملی بھاری ہے یہی سو دنوں کی عظیم کامیابیاں ہیں‘ عمران خان وزیر اعظم پاکستان نے بھارت کے بیس کروڑ مسلمان کے ساتھ ساتھ بارہ کروڑ مزید سکھوں کی حمایت کا بھی اضافہ کر لیا ہے۔