موازنہ
طبقہ اشرافیہ ،وڈیرہ شاہی اور سیاسی جماعتوں میں اجارہ داری رکھنے والے الیکٹ ایبلز کبھی بھی تبدیلی نہیں لا سکتے ۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے سو دن پورے ہونے کے بعد عوام سابقہ اور موجودہ حکومت کے پہلے سو دن کا موازنہ کررہے ہیں۔گزشتہ تین چار دہائیوں کی کرپشن ، آئین و قانون کی پامالیوں اورعام آدمی کے مسائل سے لاتعلق پارلیمنٹ کے بعد عوام حقیقی تبدیلی چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے عوام پی ٹی آئی کی حکومت کی کامیابی کے خواہاں ہیں مگر عوام کو دکھائے گئے سہانے خواب ایک ایک کرکے بڑی تیزی سے چکنا چور ہوتے جارہے ہیں۔ عوام کو جو تھوڑا بہت میسر تھا وہ بھی ان کے ہاتھوں سے چھینا جارہا ہے ۔ عمران خان کا ویژن بہت اچھا ہے جس کی وجہ سے عمران خان کو عوام میں زبردست پذیرائی ملی لیکن وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے اپنی پارٹی کے منشور پر عملدرآمد کے لئے جو ٹیم اور جو راستہ چنا ہے وہ تبدیلی کی جانب ہرگز نہیں جاتا۔کپتان کی حکومت میں ڈالر 142 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔کرپشن کے ذریعے لوٹا ہوا پیسہ واپس لانا تو درکنار کپتان اپنی حکومت کے سو دنوں میں ملک جاری کرپشن میں10 فیصد کمی بھی نہیں لاسکے ہیں۔قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ساڑھے پندرہ سال سے اپنے حکمرانوں کو مدد کیلئے پکار رہی ہے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کے معاملے پر عمران خان الیکشن سے پہلے اور بعد میں اور اب تک خاموش ہیں۔پرائم منسٹر ہائوس ، گورنرہائوس کو عوام کے لئے کھولنا، گورنر ہائوس کی دیواریں گرانا، بے گھرافراد کیلئے ایک صوبہ میں شیلٹر بنانا، شکایات کیلئے سٹیزن پورٹل ایپ بنانے جیسے اقدامات عوام کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ عوام کے مسائل سرکاری ملازمین کو حل کرنے ہیںجن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں۔ ہرروز کرپشن کی ہولناک کہانیاں قوم کو سنائی جارہی ہیں۔ اس سلسلے کو 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے۔ عمران کی حکومت میں یہ سلسلہ اور بڑھ گیا ہے لیکن باہر سے پھوٹی کوڑی تک واپس نہیں لائی جاسکی ہے جن پر کرپشن کے الزامات ہیںان کو اٹکھیلیاں سوجھ رہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مطمئن ہیں کہ موجودہ سسٹم میں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔ ہاں موجودہ سسٹم عام شہری کا حشرنشر کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے جس کی تازہ ترین مثال تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن ہے۔ ہزاروں دکانوں اور مکانوں کا چند دنوں میں صفایا کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے لئے اس وقت سب بڑا چیلنج معاشی بحران سے نمٹنا ہے۔معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے مخلص اور محب وطن ماہرین معاشیات کو نظر انداز کیا جانا حکومت کی ناکامی کی پہلی سیڑھی بن گیا ہے ۔ جن کے بچے بیرون ملک مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہوں ،جو لینڈ کروزر پر سفر کرتے ہوں ،کرپشن اور لوٹ مار کے پیسہ سے قومی خزانے کو برباد کرتے ہوں ۔ان کے ذریعے نظام کی تبدیلی یا معیشت کی بحالی کا کام کرنا غیرمنطقی ہے۔وڈیرہ شاہی ،ایلیٹ کلاس اور موروثی سیاست کے علمبردار تبدیلی نہیں لاسکتے ۔جب عام آدمی بلدیات اور اسمبلیوں میں پہنچے گا تو وہ عوام کے لئے قانون سازی کرے گا ۔ تبدیلی چہرے اور عہدے بدلنے کا نام تو نہیں ہے ۔وزیراعظم عمران خان بیرونی قرضوں کی بجائے عوام پر بھروسہ کریں۔ان کے کسی اقدام سے ظاہر نہیں ہورہا ہے کہ ان کا بھروسہ پاکستان کے عوام پر ہے۔ ملک کے کونے کونے سے ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اس معاملے پر قوم میں بے چینی پائی جارہی ہے۔لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ واقعی کوئی تبدیلی آئی ہے ؟ان کے نئے حکمرانوں میں اتنی جرأت ہے کہ وہ امریکہ سے اپنی بے گناہ اور معصوم بیٹی کو مانگ سکیں؟ جیسے کہ وہ اپنے مجرم شہریوں ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف کو لے گیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے معاملے میں وزارت داخلہ کا انتہائی اہم کردار ہے ۔ وزیراعظم نے وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہے جبکہ ڈاکٹر عافیہ نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کو امریکی جیل سے مدد کیلئے پکارا ہے(عمران خان سے قبل ڈاکٹر عافیہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بھی اپنی رہائی کیلئے خط لکھ چکی ہیں)۔ وزارت حقوق انسانی و خارجہ کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ کی مدد اور واپسی کا عزم ظاہرکرنے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت ایک مرتبہ پھر خاموش ہو گئی ہے ۔پی ٹی آئی کی حکومت کے صرف سو دن مکمل ہوئے ہیں‘ ابھی پانچ سال کا لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح عیاریاں دکھانے کا موقع پی ٹی آئی کی حکومت کو نہیں ملے گا۔ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز اس وقت شروع ہوگا جب عمران خان کی طرف سے امریکہ کی انتظامیہ سے باضابطہ رابطہ کیا جائے گا کیونکہ اس وقت وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے دونوں اہم عہدے ان کے پاس ہیں ۔ بیرونی قرضے اور امداد پاکستان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن بدستور جاری ہے۔ ایک عام آدمی کو سرکاری محکموں میں اپنا جائز کام کرانے کیلئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے ملک کو آج تک ایسا لیڈر نہیں مل سکا جو قوم کو اپنا اعتماد دے سکے اور قوم کا مکمل اعتماد حاصل کرسکے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی بھی عوام میں گہری جڑیں موجود نہیں ہیں ۔ وہ الیکٹ ایبلز کے سہارے اقتدار میں آئے ہیں اور الیکٹ ایبلز کی سوچ صرف اپنے مفاد اور کرپشن کے ذریعے دولت کمانے تک محدود ہے جس کی وجہ سے سابقہ حکمرانوں اور عمران خان کے پہلے سو دن میں کوئی فرق نظر نہیں آیا ہے اور آگے بھی اس کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔یہ الیکٹ ایبلز عمران خان کو مشکل وقت میں ذرا سا بھی سہارا اور حوصلہ نہیں دے سکتے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے عمران خان الیکٹ ایبلز کی بیساکھیاں ہٹا کر قوم کے درمیان اتر آئیں ۔ اس قوم میں اب بھی بہت جان ہے ‘پاکستانی قوم میں قربانیاں دینے اوربڑے فیصلوں پر ڈٹ جانے کی پوری صلاحیت موجود ہے ۔ پی ٹی آئی کے پاس جو اقتصادی اور معاشی منصوبہ بندی کرنے والی ٹیم موجود ہے وہ نواز شریف ،مشرف اور زرداری کے ادوار کی ہے جسے ہماری سیاسی تاریخ میں ’’باقیات‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جو پچھلے 30سالوں سے ملک کے سیا ہ و سفید کی مالک رہی ہے ۔ ا س ٹیم میں یہ صلاحیت ہرگز نہیں کہ وہ ملک کوموجودہ معاشی بحران سے نکال کر اپنے پائوں پر کھڑا کرسکے ۔ قوم کا المیہ ہے کہ اسے ہر الیکشن میں یرغمال رکھا گیا جس کے نتیجے میں حکومتیں بدل گئیں ،چہرے بدل گئے لیکن پالیسی میکر وہی رہے جو پہلے تھے ۔ یہی پالیسی میکر زقوم کی نئی نسل کے گرد غلامی کا پھندہ سخت سے سخت تر کرتے چلے جارہے ہیں ۔ قوم کے قیمتی ترین اثاثے اونے پونے داموں فروخت کیئے جارہے ہیں ۔قوم کے اعتماد کے بغیر حکومت عزت کے ساتھ پانچ سال مکمل نہیں کرسکے گی۔عمران خان کو یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کیونکہ الیکٹ ایبلز کسی اصول اور نظریہ کی بنیاد پر سیاست نہیں کرتے ہیں۔