کرتار پور کا راستہ بھارتی سکھوں کے لئے کھولنے کے اعلان نے ایک زلزلہ برپا کردیا ہے ۔بحثیں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتیں ۔
وزیر اعظم عمران خان نے ملکی ٹی وی چینلز کے اینکرز کو ایک مشترکہ انٹرویو دیا۔اس پینل میں ایک حامد میر کے سوا کوئی تجربہ کار صحافی شامل نہیں کیا گیا۔اور ایک ہی سوال جو پوچھا جانا ضروری تھا ،وہ بھی حامد میر ہی نے پوچھا۔ حامد میر منجھے ہوئے صحافی ہیں۔ ان کے سوا باقی سب پینل میں نگ پورے کرنے کے لئے ڈالے گئے۔ان میں مجیب الرحمن شامی کو ہونا چاہئے تھا، جاوید چودھری کو ہونا چاہئے تھا،دونوں مایہ ناز کالم نگار ، تجزیہ کار اور ٹی وی اینکر شمار کئے جاتے ہیں۔پینل میں کامران خان کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔طلعت حسین کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔اور نوجوانوں میں سلیم صافی کے بغیر یہ پینل مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔وقت نیوز گو آن ایئر نہیں ہے مگر مطیع اللہ جان نے اس کی ا ٹھان میں حصہ لیا۔ انہیں بھی نظر انداز کرنا مناسب نہیں تھا۔خواتین میںسینئر ترین اینکر نسیم زہرہ بھی پینل میں شامل ہونے سے کیوں رہ گئیں۔ان میں سے کسی کا چہرہ ناپسند تھا تو پھر بھی وزیر اعظم کو ایک متوازن اورصحافتی تجربے سے لیس ٹیم کے ساتھ گفتگو میںمزہ آتا اور لوگوں کے سامنے بھی ملکی اور عالمی حالات کا ایک جامع تجزیہ سامنے آ جاتا۔سہیل وڑائچ کو بھی بھلا دیا گیا ، وہ میری طرح صوفی منش ہیں۔کہیں حاوی ہونے کی خواہش ہی نہیں رکھتے۔شکر ہے کہ پینل میں حامد میر موجود تھے، انہوںنے کرتا پور کے بارے میں جو سوال کیا، اس نے پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے تضادات کا بھید کھول دیا۔انہوںنے پوچھا تھا کہ کرتار پور کھولنے کی کوشش محترمہ بے نظیر نے بھی کی اور نواز شریف نے بھی مگر انہیں ناکامی کاسامنا کرنا پڑا تو کیوں۔ وزیر اعظم نے پتہ نہیں کیوںجواب گول کردیا مگر سوال تو تاریخ کے صفحات میں کھلبلی مچاتا رہے گا۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری فتویٰ فیکٹریاں کسی کو کافر اعظم قرار دے ڈالتی ہیں اور کسی کو غدار یا بھارتی ایجنٹ یا سیکورٹی رسک یا امریکی پٹھو، ان فتوے بازوں سے قائد اعظم کی ذات گرامی بھی محفوظ نہ رہی۔ بے نظیر اورنواز شریف کس کھیت کی مولی تھے۔محترمہ بے نظیر نے سارک کانفرنس میں راجیو گاندھی کیساتھ مسکراہٹوں کا کیا تبادلہ کیا کہ ہم لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ گئے۔ یہاں تک الزام تراشی کی گئی کہ ان کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے سکھ حریت پسندوں کی لسٹ بھارت کو فراہم کر دی۔، اعتزاز آ ج بھی موجود ہیں اورا س الزام کوجھوٹ اور بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ نواز شریف نے واجپائی کو لاہور بلایا۔مینار پاکستان کے مقام پرا س سے کہلوایا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے،پھر بھی انہیں بھارتی شردھالو کہا گیا۔ حالیہ ٹرم میں نریندر مودی مریم نواز کی بیٹی مہرالنساء کی شادی میں کیا آئے کہ نعرے گونجنے لگ گئے کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے۔نواز شریف نے بھی کہا کہ بھارت سے کھل کر تجارت ہونی چاہئے۔ یہی عمران خان کہہ رہے ہیں ، یہی کرتار پور عمران نے کھول دیا مگر اس پر کسی نے بھارتی ایجنٹ ہونے کی پھبتی نہیں کسی۔ اور یہ اچھی بات ہے کہ ان کی نیت پر شک نہیں کیا گیا ۔مگر یہ بحث حل طلب ہے کہ کرتار پور کا فیصلہ عمران نے کیا یا جنرل باجوہ نے اور یہ بھی بحث چل نکلی ہے کہ عمران کو یہ فیصلہ کیوں کرنے دیا گیا اور بے نظیر اور نواز کو کیوں روکا گیا ۔بھارتی میڈیا بڑی دور کی کوڑی لایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے ایک مستحسن فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ملکوں کو براہ راست یا پراکسی جنگوں سے بچنا چاہئے تاکہ بر صغیر میں امن قائم ہو اور عوام کی خوشحالی پر وسائل خرچ کئے جا سکیں۔ بھارت میں ا س شک کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ کیا پتہ کرتا پور کی بیل منڈھے چڑھتی بھی ہے یا نہیں۔کیونکہ مودی اس اقدام سے کوئی زیادہ خوش نظر نہیں آتا۔ اسے نئے الیکشن کا سامنا ہے اور وہ اس مرحلے پر بھارتی انتہا پسندوں کی خواہشات کے خلاف نہیں جا سکتا ۔ یہ سوال الگ ہے کہ کیا وہ کروڑوں سکھوں کی خوشنودی سے محروم رہنا گوارا کر لے گا۔
دنیا میں ا س وقت کوئی اڑھائی کروڑ کے قریب سکھ ہیں جو کرتار پور کے فیصلے سے خوش ہیں اور وہ اگلے سال کے اس لمحے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیںجب تمام سکھ اپنے گرو بابا نانک جی کی پانچ سو پچاسویں سالگرہ کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں گے۔ کرتار پور کے رستے سے ا ٓنے والوں کو کسی ویزے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ وہ اپنی سرحد سے خراماں خراماں کرتار پور پہنچ سکیں گے۔وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو مدینہ سے چار کلو میٹر سے ا ٓگے جانے پر پابندی لگ جائے تو کس قدر تکلیف محسوس ہو گی۔ انہوںنے ٹھیک ہی کہا مگر عمران خان جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو قبلہ اول القدس شریف جانے کی اجازت نہیں ۔ کیا وہ اسرائیل سے بات کر کے وہاں بھی ایک کوریڈور کھلوا سکیں گے۔کوشش تو کر لینی چاہئے۔
یہ بات بھی طے کرنے والی ہے کہ سکھوں کے لئے متبرک مقامات کی تعداد پاکستان میں زیادہ ہے یا بھارت میں، یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ ریسرچ آرٹیکل نہیں ، اس لیے میں تفصیل میں نہیں جا سکتا۔اور یہ بات بھی طے کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کے لئے متبرک مقامات بھارت میں زیادہ ہیں یا پاکستان میں۔ اس کا جواب آپ سب کے ذمے ہے۔ اورا گر یہ بھارت میں زیادہ ہیں تو کیا مسلمانوں کو بھارت کا ویزہ آسانی سے مل سکتا ہے یا وہ بغیر ویزے کے ان مقامات میں سے کسی ایک جگہ بھی جا سکتے ہیں۔
ایک بحث یہ ہے کہ کیا کرتار پور کا جذبہ پاک بھارت تنازعات حل کرانے میں مدد گار ثابت ہو سکے گا۔ان میں کشمیر ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر بھارت بات کرنے کو بھی تیار نہیں مگر فی الوقت بھارت یہ تو کر دے کہ کنٹرول لائن پر ایسے دوچار مقامات کھول دے جہاںبچھڑے کشمیری خاندان ا ٓپس میں مل ہی سکیں۔ یہ سلسلہ مشرف دور میں شروع ہوا ۔ پھر بند کیوں ہو گیا۔ کشمیر سے تجارتی روٹ بھی کھولے گئے تھے، ان کا کیا بنا۔ ایک بس بھی چلی تھی ۔ اس کی قسمت کیوں ڈوب گئی۔
کرتار پور کے فیصلے کو دیوار برلن کے انہدام سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔دیوار برلن ٹوٹی تو مشرقی یورپ ٹوٹ گیاا ور پھر سوویت روس بھی ٹوٹ گیا۔ اور دنیا بھر میں تبدیلی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں۔ محترمہ بے نظیر بھی کنٹرول لائن پر پہنچیں ۔ انہوںنے ایک عالم وارفتگی میں اپنا دوپٹہ ہو ا میں لہرایا اور آزادی آزادی کے نعرے لگائے۔ ہم اس خاتون کو سیکورٹی رسک کہتے ہوئے ذرا شرمندگی محسوس نہیں کرتے ۔ا س خاتون نے لیاقت باغ میں اس مقام پر اپنا لہو بہایا جہا ں بانیان پاکستان میں سے ایک عظیم لیڈر لیاقت علی خان کا لہو بہا تھا۔ وطن کی مٹی کو لہو رنگ بنانے والی یہ خاتون غداری کے الزام کی کیسے حق دار ہو گئیں۔کرتار پورکا خواب بے نظیر شرمندہ تعبیر کر دیتیں تو ا ٓج ممکن ہے بر صغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔اور مودی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ وہ بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوا ئے گا جیسے بھارت نے مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے تھے۔ اب تونفرت کا ایک الائو بھڑک رہا ہے۔بھارت کشمیرپر بھی قابض ہے اور سیاچین پر بھی۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کو سیاچین سے فوج واپس بلوا لینی چاہئے مگر بھارتی آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان اپنی فوج نکال بھی لے، بھارت اپنی فوج رکھے گا، سیاچین وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں فوجی آمر جنرل ضیا نے کہا تھا کہ وہاں تو گھاس تک نہیں اگتی ۔
یہ ہے وہ ماحول جس میں ہم نے کرتار پور کی ایک شمع روشن کی ہے،دیکھئے طوفانی تھپیڑے اس کی روشنی پھیلنے دیں گے یا نہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024