جمعة المبارک‘ 28 ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 7 دسمبر 2018ء
روپیہ دبا¶ کا شکار ہے، عوام میڈ اِن پاکستان اشیاءخریدیں: صدر
صدر صاحب کا مشورہ سر آنکھوں پر مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ میڈ اِن پاکستان اشیا کا معیار کیا ہے۔ ان کو استعمال کرنے کے بعد کوئی انسان بھی اپنی اصل ساخت برقرار نہیں رکھ سکتا ان کے استعمال سے بیمار دنیا سے، لڑکیاں رشتوں سے اور صحت مند صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ پاکستان جو اس وقت خطرناک امراض کی لپیٹ میں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ناقص میڈ اِن پاکستان اشیا کا استعمال ہے ہر چیز دو نمبر اور ناقص ملتی ہے۔ غریب لوگ تو کب سے اشیا استعمال کر رہے ہیں۔ خواص اس طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے انکے تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ وہ اول تا آخر غیر ملکی برانڈ کی اشیاءاستعمال کرتے ہیں خواہ کچھ بھی ہو جائے۔ اب ان کو یہ مشورہ دیا جانا چاہئے کہ خواص میڈ اِن پاکستان اشیا خریدیں۔ آزما کر دیکھ لیں صدر صاحب کی اس اپیل کا اثر وہی ہوگا جو بھینس کے سامنے بین بجانے سے ہوتا ہے۔ روپے کی قیمت کم ہو یا روپے کا گلا گھونٹ دیا جائے امراءکو خواص کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ وہ روپیہ پیسے کے چکروں سے آزاد ہیں ان کی تمام تر توجہ ڈالرز اور پونڈ پر ٹکی ہوئی ہے۔ اسی لئے چند سو ڈالر پا¶نڈ کی خریدی اشیاءبھی انہیں سستی معلوم ہوتی ہے جبکہ عوام دو ڈالر کی اشیا بھی خرید نہیں سکتے کیونکہ یہ مبلغ 270/- روپے یا سکہ رائج الوقت بنتے ہیں جبکہ غریب آدمی کی اوسط آمدنی 350/- روپے دیہاڑی ہوتی ہے وہ بے چارہ تو اس قلیل آمدنی میں امپورٹڈ چیزیں دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رکھتا....!!!
٭....٭....٭
نادرا نے افغان انٹیلی جنس اہلکاروں کو بھی شناختی کارڈ جاری کئے: قائمہ کمیٹی
اس شاندار کارکردگی پر تونادرا والے خصوصی شاباش کے مستحق ہیں۔ اس کا صاف مطلب تو یہ ہے کہ ملک میں جو بدامنی تخریب کاری اور جرائم کی لہریں چل رہی ہیں ان میں سب سے بڑا ہاتھ نادرا والوں کا ہے جو چند روپوں کے عوض افغانستان اور بھارت کے جاسوسوں کو بھی بصد احترام و خلوص شناختی کارڈ جاری کر دیتے ہیں تاکہ وہ اطمینان سے جہاں چاہیں جو چاہیں کریں۔ انہیں کوئی روکے ٹوکے تو وہ یہ شناختی کارڈ دکھا کر خود کو بچا لیں۔ یہ کہانی صرف یہاں ختم نہیں ہوتی انہی دو نمبر شناختی کارڈوں کی بدولت یہ جاسوس پاسپورٹ بنا کر دنیا بھر میں اپنے آقاﺅں سے رابطے میں رہتے ہیں میل ملاقات کرتے ہیں۔ یہ افغانی بھارتی جاسوس بآسانی بھارت اور افغانستان کی یاترا بھی کر آتے ہیں۔ اب اس کاعلاج کون کرے اس سے بھی بڑی افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ خود نادرا میں کئی افغان شہری پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرکے ملازمتیں کر رہے ہیں وہ بھی اپنے افغان بھائیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ یوں ہمارا اپنا ادارہ ہی جو ہمیں شناخت عطا کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ غیرملکیوں کو بھی بڑی فیاضی کے ساتھ یہ خدمات فراہم کر رہا ہے۔ اب قومی اسمبلی میں اس بلند و بالا آواز پر سختی سے کان دھرنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اس فتنے کا سدباب کیا جائے، ورنہ یہ اور نئے فتنوں کو ہوا دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
٭....٭....٭
ایک اور قطری شہزادے نے تلور کے شکار کی فیس ایک لاکھ ڈالر جمع کرا دی
سابق دور میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف تلور کے شکار کے خلاف جو طوفان کھڑا کیا تھا لگتا ہے خود حکومت میں آنے کے بعد انہی شور مچانے والوں نے اپنے اس شوریدہ سری پہ بھی یوٹرن لے لیا ہے۔ اب سیزن آتے ہی دھڑا دھڑا، عرب شکاریوں کو بھاری معاوضے پر انہی معصوم قرار دئیے جانے والے پرندوں کی شکار کی اجازت دی جانے لگی ہے۔ پہلے ۔ پہلے عرب شہزادے تلور کے شکار والے علاقوں میں، ہسپتال، فلاحی ادارے، سڑکیں اور سکول بنا دیتے تھے تاکہ علاقوں میں ترقی ہو، تلور کی افزائش کے فارم کھولتے تھے تاکہ انکی تعداد کم نہ ہو، اب براہ راست حکومت نے انکی جیب سے پیسہ وصول کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ بلوچستان میں تلور کے شکار کے لئے فیس ایک لاکھ ڈالر ہے جس میں شکاری 10 روز میں 100 تلور شکار کر سکتا ہے۔ پاکستانیوں اور مقامی آبادی کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم دیں وہ چوری چھپے مقامی انتظامیہ کو خوش کر کے شکار کا شوق پورا کرتے ہیں وہ بھی بے حساب و کتاب۔ البتہ اب تک دو عرب شہزادوں نے 2 لاکھ ڈالر فیس جمع کرا کے شکار کا لائسنس لے لیا ہے۔ اب یہ رقم بلوچستان حکومت کے کاسہ میں جائے گی۔ جہاں سونے کے پہاڑ بھی ڈالے جائیں۔ غائب ہو جاتے ہیں پتہ نہیں چلتا وہ کہاں گئے۔ اس سے بہتر ہے حکومت بلوچستان اسی رقم سے اس علاقے میں سکول اور ہسپتال تعمیر کرے۔ پانی کی فراہمی کا بندوبست کرے۔ علاقے میںسڑکوں کا جال بچھائے تاکہ علاقہ کی ترقی ہو، نہ کہ یہ رقم بھی غتر بود کر دے۔ پنجاب میں چولستان میں دیکھ لیں۔ عرب شہزادوں نے کس طرح سکول کالج ہسپتال ،زرعی فارم اور تلور کے افزائشی فارم کھول کر خدمت خلق کی راہ کھولی تھی۔
٭....٭....٭
جرمن سفیر نے خیبر پی کے میں ناقص معیار کی سڑک کی تعمیر پر سوال اٹھا دئیے
جیسے جیسے چہرے سے غازہ اترتا ہے اصل صورت آہستہ آہستہ سامنے آنے لگتی ہے۔ اسی طرح لاکھ فسانے تراشے جائیں ترقی کی کہانیاں سنائی جائیں بالآخر جب اصل چہرہ سامنے آتا ہے تو بہت سے پول کھل جاتے ہیں۔ خیبر پی کے میں ترقی کے حوالے سے وہاں کی عظیم الشان تبدیلی کے حوالے سے بہت سے فسانے نہایت مہارت سے تراشے گئے۔ مگر اب سپریم کورٹ تک صحت، تعلیم، ایک ارب درخت سمیت مختلف ترقیاتی افسانوں کو جھٹلا رہی ہے۔ گذشتہ روز جرمن سفیر جو ویسے ہی پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے پشاور کے نواح میں جرمن حکومت کے تعاون سے مقامی افراد کی طرف سے تیار کردہ سڑک کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ 12 انچ موٹی یہ سڑک 40 لاکھ روپے میں لوگوں نے اپنی مدد آپکے تحت بنائی ہے جبکہ حکومت نے 6 انچ کی موٹائی والی ایسی ہی سڑک ایک کروڑ میں تیار کی۔ جس میں ناقص میٹریل لگایا گیا جبکہ لاگت بھی دوگنا تھی۔ یہ سڑک صوبے کی باقی مہنگے داموں تیار ہونے والی سڑکوں سے لاکھ درجہ بہتر ہے جو جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ان کی اجڑی ہوئی حالت سب کے سامنے ہے۔ جرمن سفیر کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبر پی کے میں سب اچھا صرف بیانات کی حد تک تھا۔ شاید یہی وجہ ہے اب صوبہ خیبر پی کے کے سابق وزیراعلیٰ کو بھی بہت سے معاملات کے لئے عدالت میں طلب کیا جا رہا ہے کیونکہ صوبے کی ترقی اونچی دکان پھیکا پکوان والی کہاوت ثابت ہو رہی ہے۔ جرمن سفیر نے سڑک پر کھڑے مالٹے والی ریڑھی سے مالٹے بھی لئے اور ساتھ ہی پلاسٹک شاپر کے استعمال پر تنقید بھی کی کہ پابندی کے باوجود ہر جگہ یہ مضر صحت اورآلودگی کا باعث بننے والے شاپر کھلے عام استعمال ہو رہے ہیں۔