ممنوعہ سیاسی فنڈنگ

پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں نے عمران خان کو اقتدار سے باہر کرنے کے بعد اس کی سیاست کو نقصان پہنچانے کا ہر حربہ استعمال کر کے دیکھ لیا، ہر چال الٹی پڑ رہی ہے۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق پی ڈی ایم جب بھی عمران خان کو عوام میں گندا کرنے کا کوئی منصوبہ لانچ کرتی ہے وہ ٹھس ہو جاتا ہے بلکہ اس کا الٹا اثر ہو رہا ہے۔ جوں جوں یہ پروپیگنڈا حربے استعمال کرتے ہیں توں توں اس کی عوام میں پذیرائی بڑھتی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم عمران کی شہرت سے بہت پریشان ہے اور یہ پریشانی انھیں عوام میں جانے سے خوفزدہ کر رہی ہے۔ وہ عمران خان کو قابو کیے بغیر عوام میں جانے کا رسک نہیں لے سکتے، لہٰذا اب آخری وار کیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم نے تمام تر حربوں میں ناکامی کے بعد اب فیصلہ کیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو نا اہل کروایا جائے اس کی جماعت کو ڈمیج کیا جائے۔ اس کام کے لیے اب مواد اور راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ سے لے کر توشہ خانہ تک کا جگاڑ لگایا جا رہا ہے۔ عدالتوں یا اداروں کے ذریعے عمران خان کے خلاف کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے جس سے اس کو محدود کیا جا سکتا ہے لیکن عوام کے دلوں سے فی الحال اس کی محبت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
 جس بنیاد پر یہ ساری کہانی گھڑی جا رہی ہے اسے عوام نے تو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ عمران خان بیرون ممالک سے چندہ اکٹھا کر کے پاکستان لے کر آیا۔ یہاں پرانے سیاستدانوں کی اجارہ داری ختم کی اندرون ملک سے پارٹی فنڈ کے نام پر دولت اکٹھی کر کے بیرون ملک ٹرانسفر نہیں کی، لہٰذا اس نے کوئی اخلاقی جرم نہیں کیا۔ وہ جب عمران خان کی فنڈنگ کا موازانہ دوسری سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے کرتے ہیں تو عمران خان انھیں فرشتہ نظر آتا ہے کیونکہ انھوں نے وہ سب مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں جب کراچی کی ایک جماعت پارٹی فنڈ کے نام پر زبردستی بھتہ لیتی تھی اور ماہانہ بنیادوں پر اسے بیرون ملک ٹرانسفر کیا جاتا تھا۔ اسی فنڈ سے بیرون ملک جائیدادیں بنائی گئیں اور پارٹی ہیڈ بیرون ملک بیٹھ کر اس بھتہ کے پیسوں سے عیاشی کرتا رہا اور اسی سرمائے سے اسلحہ خرید کر کراچی کو کئی دہائیوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی تھی کہ جس ماہ رقم کم بھیجی جاتی اس ماہ باقاعدہ رابطہ کمیٹی کو گالیاں پڑتی تھیں۔ اگر الیکشن کمیشن کو وہ والی ممنوعہ فنڈنگ نظر نہیں آئی اور اس جگا ٹیکس پر پارٹی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو سارا کچھ ڈکلیر کرنے کے باوجود اس میں کیڑے نکال کر فکس کرنے کی سازش کو عوام بخوبی محسوس کر رہے ہیں۔
اسی طرح ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتیں جو کہ آج پی ڈی ایم کی چھتری تلے اکٹھی ہو کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں ان کے طریقۂ واردات کو کون نہیں جانتا کہ انھوں نے کس طرح بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سرکاری وسائل سے نواز کر ان سے پارٹی فنڈ کے نام پر اندرون ملک اور بیرون ملک کتنے فنڈ لیے۔ انھیں کس طرح قومی اثاثے اونے پونے داموں میں تحفے میں دیدیے۔ کس طرح ٹھیکیداری کلاس متعارف کروائی گئی جو چھوٹے سے ٹینڈر سے لے کر میگا پراجیکٹ میں سے کس طرح حصہ سیاستدانوں کو پہنچاتے رہے۔ کس طرح ٹھیکداروں نے اراکین اسمبلی کے الیکشن اخراجات اٹھائے۔ سب کچھ عیاں ہے کہ کس طرح کلیدی عہدوں پر کماؤ پوت لگا کر ان سے دیہاڑیاں وصول کی جاتی رہیں۔ کن کن حربوں سے پارٹی فنڈ وصول کر کے انھیں کہاں کہاں خرچ کیا جاتا رہا۔ لوگوں کو سب یاد ہے کہ پارٹی ٹکٹ کروڑوں میں کون کون فروخت کرتا رہا۔ یہ بھی کوئی چھپی ہوئی باتیں نہیں۔ یہاں تک کہ ہماری مذہبی جماعتیں کس طرح دھڑلے کے ساتھ دوسرے ممالک سے اپنے مدرسے چلانے کے لیے اور اپنے مسلک کو پروموٹ کرنے کے لیے فنڈز لیتی رہی ہیں۔ یہاں تک کہ مدرسوں کے نام پر بیرون ممالک سے فنڈ لے کر کون کون امیر ہوا ہے کس کس نے راجدھانیاں بنائی ہیں۔ سب کچھ عیاں ہیں کہ پاکستان میں این جی اوز کہاں کہاں سے فنڈز لے کر ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ کرتی رہی ہیں۔
ہماری ایجنسیاں اس سب سے بخوبی واقف ہیں اور اگر اس کی گہرائی میں جایا جائے تو پاکستان جن پابندیوں کا آج سامنا کر رہا ہے اس میں یہی فنڈنگ کہانی کا بنیادی کردار ہے۔ یہ ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟ یہ اسی ممنوعہ فنڈنگ کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کو ٹیرر فنانسنگ کے الزام کا کیوں سامنا کرنا پڑا؟ آج بینکنگ سیکٹر میں اتنی سختیاں کیوں ہیں؟ ان سب کی وجوہ وہی ممنوعہ فنڈنگ تھی۔ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کو کہاں کہاں سے فنانسنگ ہوتی رہی، ان سب معاملات پر ہم نے مٹی ڈال دی ہے اور آجا کے عمران خان کو سیاسی طور پر قابو کرنے کے لیے رگڑا لگایا جا رہا ہے کہ اس نے بیرون ملک فنڈز اکٹھا کر کے پاکستان میں ظاہر کیوں کیا ہے۔ اگر بیرون ملک میں مقیم پاکستانی اور اغیار اس پر اعتبار کرتے ہیں تو اس کی وجہ ہے کہ دنیا کو یقین ہے کہ عمران خان ان کے دیے ہوئے عطیات فلاح کے منصوبوں اور عوام کی بہتری پر لگاتا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر سے لے کر اس کی ورکنگ اس بات کی غمازی ہے کہ ڈونر اس پر اعتماد کرکے ہر سال اربوں روپے کی ڈونیشن دیتے ہیں۔ اگر حکومت نے ممنوعہ فنڈنگ کو جواز بنا کر عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اس کو کسی نے قبول نہیں کرنا بلکہ یہ بھی الٹا حکومت کے گلے پڑ جائے گا۔ اگر سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کا میرٹ پر جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کے پاس تو معمولی سے معمولی رقم کا بھی ریکارڈ موجود ہے جبکہ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں کے پاس تو کاغذ بھی پورے نہیں ہیں۔ وہ نہ فنڈنگ کے حصول کے ذرائع بتا سکتی ہیں نہ اس فنڈنگ کا مصرف بتانے کی پوزیشن میں ہیں۔ ایسی صورت میں عوام حق بجانب ہوں گے کہ وہ باقی سیاسی جماعتوں کے فنڈز کا بھی حساب کتاب مانگیں۔
دراصل، پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں عمران خان کی مخالفت میں اکٹھی ہو کر اس کی حکومت گرا کر پھنس چکی ہیں۔ حالات ایسے پیدا ہو چکے ہیں کہ عوام کسی بھی انتقامی کارروائی کو برداشت نہیں کریں گے۔ کسی بھی دھونس کی صورت میں حکمرانوں کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کا مقابلہ سیاسی انداز میں کیا جائے۔ اسے فکس کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ عوام پہلے ہی کھیل تماشوں سے تنگ آچکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ عمران کو آؤٹ کرتے کرتے حالات کسی اور طرف نکل جائیں جو کسی کے بھی کنٹرول میں نہ رہیں۔ ملک پہلے ہی بہت مشکل فیز سے گزر رہا ہے، ایسے حالات میں مزید انتشار ملک وقوم کو تباہی سے دوچار کر دے گا۔ فیصلہ کن قوتوں کو چاہیے کہ اپنا قومی کردار ادا کریں۔ خواہشات کی تکمیل اور ذاتی اناؤں کے لیے ملک کے ساتھ کسی کو بھی کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...