سوشل میڈیا کے شتر بے مہار اور منفی استعمال کا سدباب وقت کا تقاضا ہے
پاک فوج کے ہیلی کاپٹر حادثے اور طالبان رہنما ایمن الظواہری کی افغانستان میں ڈرون حملے میں ہلاکت کے حوالے سے ملک کے بدخواہ بعض حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر شروع کئے گئے زہریلے‘ شرانگیز اور بے بنیاد پراپیگنڈے پر پاک فوج کی ہی نہیں‘ پوری قوم کی دل آزاری ہوئی ہے اور سوشل میڈیا کے منفی سرگرمیوں کیلئے بے مہابہ استعمال کی مؤثر روک تھام کی ضرورت اب سنجیدگی کے ساتھ محسوس ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کے لائیو پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر جاری اس شرمناک مہم کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ اس منفی مہم سے شہداء کے اہل خانہ کی دل آزاری ہوئی ہے اور افواج پاکستان میں شدید غم و غصہ ہے۔ انہوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سانحہ کے تکلیف دہ وقت میں پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی۔ توہین آمیز مہم بے حس رویہ کی حامل اور شدید قابل مذمت ہے۔ انہوں نے ایمن الظواہری کی ہلاکت کے واقعہ پر سوشل میڈیا پر ہونیوالے بے بنیاد پراپیگنڈے کی بھی سختی سے تردید کی اور بتایا کہ دفتر خارجہ نے اس معاملہ میں وضاحتی بیان جاری کر دیا ہے‘ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ افغانستان میں امریکی ڈرون حملے کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال ہو۔ یہ بے بنیاد اور باطل کہانیاں ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ قیاس آرائیوں سے اجتناب کیا جانا چاہیے، جس کا جو دل کرتا ہے وہ سوشل میڈیا پر لکھ دیتا ہے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ دشمن ممالک کی طرف سے یہ چیزیں فیڈ کی جاتی ہیں، بے جا قسم کے بیانات دیئے جاتے ہیں جس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ ایسی چیزوں سے صرف ملک کو نقصان ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے فوجی ہیلی کاپٹر کے یکم اگست کو رونما ہونیوالے افسوسناک حادثے کی تفصیلات بھی بتائیں جس کے مطابق افسران فلڈ ریلیف کے کاموں کی نگرانی کر رہے تھے۔ حب ڈیم کے پاس اچانک موسم خراب ہوا اور ہیلی کاپٹر کریش ہو گیا۔ انکے بقول اس حادثے کی ساری تفصیلات ہمارے پاس آچکی ہیں اور حادثے کے بعد جس وارفتگی کے ساتھ قوم کی سپورٹ ہمیں ملی اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔ قوم کی اسی سپورٹ کی وجہ سے ہماری فوج کھڑی ہے۔ سوشل میڈیا پر بے بنیاد اور منفی پراپیگنڈا اور بے حس رویہ ناقابل قبول ہے۔ اسکی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ ایسے عناصر کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اس منفی پراپیگنڈے سے شہداء کے لواحقین کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان میں غم و غصہ اور اضطراب ہے۔ یہ مہم تکلیف دہ اور توہین آمیز ہے۔
سوشل میڈیا کی اہمیت و افادیت سے بھی انکار یقیناً ممکن نہیں۔ اسکے ذریعے پوری دنیا عملاً ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرچکی ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں انسانوں کو غربت‘ بے روزگاری‘ وسائل کی کمیابی‘ عوارض و آفات کے حوالے سے درپیش مسائل اور ان مسائل سے حوالے سے دم توڑتی انسانیت کی جھلک سوشل میڈیا پر چلنے والی کلپس اور مختلف ذرائع کی اطلاعات کی بنیاد پر نظر آجاتی ہے۔ اس طرح انسانی دکھ درد کا احساس بھی اجاگر ہوتا ہے اور انسانی دکھوں کے مداوے کا جذبہ بھی عود کر آتا ہے اور پوری نیا ایک انسانی کنبے کے قالب میں ڈھلی نظر آتی ہے مگر یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ منفی سوچ کے حامل بعض مفاد پرست‘ سفاک عناصر نے سوشل میڈیا کو معاشرے میں بے حیائی و منافرت پھیلانے کیلئے بروئے کار لانا شروع کر دیا اور اسکے ساتھ ساتھ مجہول نظریات اور سیاسی عزائم کی بھی شتربے مہار انداز میں تشہیر کیلئے اس مؤثر پلیٹ فارم کو استعمال کیا جانے لگا۔ چونکہ سوشل میڈیا پر کسی قسم کا کنٹرول اور قانونی قدغن موجود نہیں اس لئے جس کے ذہن میں اپنی خباثتوں پر مبنی جو گند موجود ہوتا ہے‘ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اسکے اظہار میں ذرہ بھر جھجک محسوس نہیں کرتا۔ اس سے جہاں ہماری اخلاقی اقدار مسمار ہو رہی ہیں وہیں کسی کی عزت و آبرو بھی محفوظ نظر نہیں آتی۔
سوشل میڈیا پر پھیلے اس شتر بے مہار کلچر نے یقیناً کئی گھر اور خاندان برباد کئے ہیں اور اخلاقیات کی مضبوط بنیادوں پر کھڑے انسانی معاشرے کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے ہی بدبخت عناصر نے پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول پر استوار مملکتوں کی آزادی اور خودمختاری کو بھی جھنجوڑنا شروع کر دیا اور انسانی عظمت و عزیمت کے بھی پرزے اڑانا شروع کر دیئے۔ سوشل میڈیا کی آزادی کے اسی دور میں پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے حکومتوں اور اداروں کی اتھارٹی چیلنج کرنے اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا ایک نیا کلچر روشناس کرایا جس کیلئے انہوں نے اپنی پارٹی میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا باقاعدہ ایک ونگ تشکیل دیا جن میں شامل نوجوانوں کو عمران خان کی ترغیب و تبلیغ کے مطابق کھل کھیلنے کا بھرپور موقع ملا چنانچہ اس ونگ نے عمران خان کے سیاسی نظریات کو ٹھونسنے اور انکے سیاسی مخالفین کی بھد اڑانے والے بدتمیزی کلچر کو سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی کے قالب میں ڈھال دیا۔
چونکہ عمران خان خود اس کلچر کے بانی ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ ریاستی آئینی اداروں پر بھی عامیانہ انداز میں چڑھائی کرنا اپنی سیاست کی کامیابی اور عوام میں اسکی پذیرائی سے تعبیر کرتے ہیں اس لئے انکے تشکیل کردہ سوشل میڈیا ونگ کے ایکٹوسٹوں نے بھی سوشل میڈیا پر ایسا ہی چلن اختیار کرکے بے سروپا الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں کا اودھم مچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جن کے ہاتھوں ریاستی آئینی اداروں سمیت کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہی۔ پی ٹی آئی سٹوڈنٹ ونگ کے زیرحراست ایک سابق عہدے دار محمد منیب کیانی نے جو سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ متحرک تھا‘ فوج کیخلاف مہم چلانے پر شرمندگی اور معذرت کا اظہار کرکے درحقیقت پی ٹی آئی سوشل میڈیا ونگ کے مذموم مقاصد بے نقاب کئے ہیں۔ اسکے بقول مختلف پیجز سے انفارمیشن لے کر اس نے جو ٹویٹ جنریٹ کئے‘ اس میں کچھ بھی سچ نہیں تھا جبکہ اس نے اپنے زہریلے پراپیگنڈے کے ذریعے پھیلائی جھوٹی اور بے بنیاد معلومات کی کبھی تصدیق کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ یہی اس ونگ کے دوسرے ایکٹوسٹوں کا چلن ہے جس کی انہیں بطورخاص پارٹی قیادت کی جانب سے تربیت دی گئی ہے اور اس کام کی انہیں باقاعدہ سرکاری خزانے سے تنخواہ ملتی رہی ہے۔ اس وقت بھی خیبر پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا ونگ کیلئے بھاری تنخواہوں پر سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کی سینکڑوں کی تعداد میں بھرتیاں کی گئی ہیں جو سوشل میڈیا کو انہی مقاصد کیلئے استعمال کرینگے جس کیلئے انہیں پارٹی قیادت کی جانب سے گائیڈ لائن دی جائیگی۔ لسبیلہ بلوچستان میں یکم اگست کو رونما ہونیوالے پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کے ناگہانی حادثہ اور افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں ایمن الظواہری کی ہلاکت کے واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پر پاک فوج کے بارے میں پھیلائے گئے مذموم‘ شرانگیز حقائق کے منافی منفی پراپیگنڈے کی کڑیاں بھی ملک میں ریاستی اداروں کیخلاف منافرت کی فضا پیدا کرنے اور اشتعال و افراتفری پھیلانے کے ایجنڈے کے ساتھ ملتی نظر آتی ہیں جبکہ منافرت کی اس فضا کا خود پی ٹی آئی کو بھی نقصان ہوا اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سخت ردعمل کے خدشہ کی بنیاد پر شہدائے لسبیلہ کی نماز جنازہ میں خواہش کے باوجود شریک نہ ہو سکے۔ بلاشبہ اس منفی اور شرانگیز پراپیگنڈے کے باعث شہداء کے اہل خانہ کی طرح پوری قوم بھی شدید غم و غصہ میں ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہداء کے اہل خانہ سے تعزیتی ملاقاتیں کرکے انکی ڈھارس بندھائی ہے اور آئندہ جنگوں میں سائبر ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ سوشل میڈیا کو اپنے منفی‘ مذموم اور ریاست وریاستی اداروں کی عزت و توقیر پر حملہ کرنے کے عزائم رکھنے والے عناصر کی سختی سے گرفت کی جائے اور سوشل میڈیا پر منافرت پھیلانے والی سوچ کو ہرگز پنپنے نہ دیا جائے۔ آئین کی دفعہ 18 کی روشنی میں اس سلسلہ میں جو بھی تادیبی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں‘ وہ ہرصورت بروئے کار لائے جائیں۔