یہ جو لاہور سے محبت ہے
بڑی مشہور مثل ہے کہ جنہے لاہور نہیں تکیا اوہ جمیا ای نہیں‘‘ لاہور ایک شہر نہیں بلکہ ایک جہان کا نام ہے۔ اِس کے دامن میں کئی دنیائیں آباد ہیں۔ جدید اور قدیم ہر قسم کا رنگ اِس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ لوگوں کو اپنے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ شہر کی فضاء نے لوگوں کو اپنے رنگ میں رنگ رکھا ہے۔ اب یہ لوگ جہاں جاتے ہیں اُس ماحول کو اپنے مزاج میں ڈھال لیتے ہیں۔ لاہور کے لوگوں اور موسم کا ایک خاص مزاج ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ان کے حوالے سے کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی اور کر بھی دی جائے تو وہ الٹ ہی نکلتی ہے۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ بظاہر پرسکون نظر آنے والے اگلے لمحے کیا کر گزریں گے بعض اوقات یہ ناممکن بات کو سچ ثابت کر دیتے ہیں۔ہر وقت چیلنج کی تلاش میں رہتے ہیں۔بظاہر من موجی،مست،لاپرواہ مگر اندر خانے ساری خبریں رکھنے والے۔اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو بھی للکارنے سے باز نہیں آتے-انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں لاہوریوں کا رویہ دیکھ لیں۔جانثاری اور حب الوطنی ملاحظہ کریں۔ جب بھاری ٹینکوں کے مقابلے میں نہتے مگر جذبوں سے سرشار لوگ بیلچے لے کر باہر نکل آئے۔ جب دشمن کے جہازوں کو دیکھ کر چھپنے کی بجائے چھتوں پر چڑھ جاتے اور ڈنڈے پکڑ کر جہاز والوں کو گالیاں دیتے تھے بلکہ للکارتے تھے اب لاہور میں اچھا خاصہ ماحول تھا۔ عید سے پہلے کرونا کے روزانہ کوئی اکا دکا کیسز ہی سامنے آتے تھے۔لاہور والے چین کی بانسری تو نہیں بجا رہے تھے کیونکہ ان کے لیے گھر کے اندر قید رہنا سب سے بڑی سزا ہے۔ ایک ایسا شہر ہے جس کا مال روڈ رات کو تین بجے بھی کھلا رہتا ہو۔چائے کے ڈھابے پر من موجی رات گئے تک بیٹھے گپیں لگاتے اور زندگی کے درد ہنسی میں اڑاتے ہوں-ان کے لیے دوستوں،محفلوں، رنگوں،ہواوں، صدائوں، ماحول اور مجلسی زندگی سے کٹ کر رہنا مشکل ہے۔وہ جس طرح کھانے پینے کے شوقین ہیں اسی طرح گفتگو بھی ان کی خوراک ہے۔بس میں ساتھ بیٹھے بندے سے ایسے بات کرتے ہیں جیسے بڑی دیر بعد بچپن کے کسی عزیز یامحلے دار سے ملاقات ہو گئی ہو۔ادیبوں شاعروں کی بات کریں تو انہوں نے بھی اپنے مختلف پلیٹ فارم بنائے ہوئے ہیں۔ کچھ کا کسی چائے والی دکان پر اکٹھا ہونا معمول ہے، کچھ ریٹائرڈ فرد کے گھر کے کھلے ڈلے لائونج میں محفل سجا لیتے ہیں۔اور جس کا جب جی چاہے وہ پاک ٹی ہاؤس چلا جائے۔ علمی ادبی حوالے سے ہونے والی مختلف اصناف کی بدلتی بگڑتی شکلیں۔ترقیاں اور حالات کے مطابق ڈھلتی سوچ زیر بحث رہتی ہے۔نئے رویے اور نقطہ نظر سامنے آتے ہیں۔ یہی حال کالم نگاروں،اینکروں اور تجزیہ نگار وں کا ہے۔ ان کے پاس کوئی نہ کوئی پریس کلب ٹائپ جگہ موجود ہوتی ہے جہاں وہ جمع ہوکر ملکی اور عالمی حالات پر اظہار خیال کے ساتھ اڑتی خبروں کی حقیقت معلوم کرتے ہیں۔
لاہور کی بے پناہ خوبصورتی کے حوالے سے ہر دور کے شاعروں نے اِس کی تعریف کی ہے حتٰی کہ ماضی کے بادشاہوں نے بھی اِس کو دِل والوں کا شہر کہہ کر اِس کی عزت افزائی کی ہے۔ حالیہ بارشوں سے لاہور میں جو پانی جمع ہوا زندہ دلان اُس سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے اور ہا ہا کار مچانے کی بجائے قدرت کی رحمت کو رحمت سمجھ کر قبول کیا۔ تاہم حکومت پنجاب کے بہتر فیصلوں اور حکمت عملی کی بناء پر قربانیوں کا فضلاء اور گندگی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور اب آخر میں قمر ریاض کا تازہ خوبصورت کلام جو وبا کے حوالے سے ہے۔
تیری طلب بڑھی ہے سزا کے دنوں میں بھی
چاہا ہے تجھ کو میں نے وبا کے دنوں میں بھی
میں مر مرا گیا تو تجھے یاد آئوں گا
ہوتا تھا تیرے ساتھ دعا کے دنوں میں بھی
کچھ اس لئے بھی ترک تعلق کا دکھ نہیں
کھلتے ہیں پھول تیز ہوا کے دنوں میں بھی
جن دوستوں نے مجھ کو وبا میں بھلا دیا
ان سے نہیں ملوں گا شفا کے دنوں میں بھی
کیسا لگاو، کیسی محبت کہاں کا عشق
سب جھوٹ بولتے ہیں وفا کے دنوں میں بھی
اک پیڑ جل رہا ہے یہاں آندھیوں کے بیچ
اک شخص جی رہا ہے جفا کے دنوں میں بھی
عیبوں بھرے قمر ؔکا یہ پختہ یقین ہے
وہ درگزر کرے گا خطا کے دنوں میں بھی
٭…٭…٭