موسمِ برسات اور ہماری مشکلات
بے روزگاری کے ستائے عوام ایک طرف ذہنی کوفت اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکے ہیں تو دوسری طرف مون سون طوفانی بارشوں اور سیلاب سے تباہی کی نئی داستان رقم کر رہا ہے۔ ہر سال برسات میں قیمتی املاک، انفراسٹرکچر کی بربادی، خوراک و ادویات کی شدید قلت، مواصلاتی نظام کے درہم برہم ہو جانے اور نشیبی علاقے زیرِ آب آنے سے جب فلائی اوور، سڑکیں ندی، نالوں، جھیل کا منظر پیش کرتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک وہیں کھڑے ہیں اور گویا کہ پتھروں کے دور میں بستے ہیں کہ جہاں بارانِ رحمت، زحمت بن جاتی ہے۔ کیا بارش اس سال بھی تباہی کے اَن مٹ نقوش چھوڑ جائے گی؟ حالانکہ محکمہء موسمیات مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی واضح پیش گوئی اور ہدایات دیتا رہتا ہے مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی ناگہانی آفت کے موقعے پر تباہی و بربادی سے بچنے کے لیے ہمارے پاس نہ تو جدید مشینری ہے اور نہ ہی جدید سازو سامان۔ حتی کہ محکمہء آب پاشی کے پاس پانی کی مقدار جانچنے کے لیے کوئی پیمانہ نہیں۔ ہر سال جب مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو صوبہء خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع بالخصوص پشاور، چارسدہ، مردان، نوشہرہ کے عوام میں تشویش و خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے کیونکہ پانی کا ریلا جب بے قابو ہو کر بپھرے ہوئے اندا زمیں ان علاقوں میں داخل ہوتا ہے تو سامنے آنے والی ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہیے کہ تباہی پھیلنے کے بعد ہی حکومت حرکت میں آتی ہے۔ جب غریب و لاچار عوام کا سب کچھ لُٹ چکا ہوتا ہے۔ بہت سارے ایسے لوگ دہائیاں دے رہے ہوتے ہیں کہ ان کی ساری حیات کی جمع پونجی اور بیٹی کا سارا جہیز بہہ گیا ہے۔ یہ تو بات تھی خیبر پختونخواہ کی، بارش کا پانی اکثر بالائی سندھ (سکھر) کی سب سے بڑی کپڑے کی ہول سیل مارکیٹ میں داخل ہو جاتا ہے اسطرح کروڑوں مالیت کا کپڑا ضائع ہو جاتا ہے۔ مارکیٹ کے تاجروں کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ انتظامیہ نہیں پوچھتی کہ تاجر کس مشکل میں گرفتار ہیں۔ بس اپنی مدد آپ کے تحت ہم بارش کا پانی نکال رہے ہیں ہوتے ہیں۔ ضلع گھوٹکی کے علاقے میرپور ماتھیلو، ڈھرکی اور اُباڑو کا پانی میں ڈوبنا ہر سال کا معمول ہے۔ گھوٹکی کی انتظامیہ غیر فعال ہونے کی وجہ سے کپاس، چاول اور سبزیوں کی 70فیصد فصلیں متاثر ہوتی ہیں یوں تقریباً فصلوں کو 25کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان جھیلنا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات شہری آمدورفت کے لیے کشتیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ شکارپور کی انتظامیہ اس وقت بہت تیز دکھائی دیتی ہے۔ جب وزیراعلیٰ سندھ وہاں کا دورہ کریں مگرجیسے ہی وزیراعلیٰ روانہ ہوتے ہیں، انتظامیہ مشینری اور دیگر سازوسامان سمیت رفوچکر ہو جاتی ہے۔ مون سون سیزن میں ذرا سی بارش کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں سیوریج کا نظام درہم برہم ہونا اٹل ہے۔ جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پشین، بولان اور دکی میں سیلابی ریلے گھروں کو بھی بہا کر لے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کئی دیہات ایسے ہیں جہاں خواتین بچے اپنے قیمتی اثاثے اور مال و متاع چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں جانیں بچانے کے لیے شہر کی سڑکوں پر پیدل، گاڑیوں، رکشوں، ریڑھیوں پر دیوانہ وار محفوظ مقامات کی جانب بھاگ رہے ہوتے ہیں گزشتہ سالوں کے دوران متعدد حفاظتی بند ٹوٹنے سے 102سالہ پرانے تاریخی، ثقافتی، سماجی، بلوچی اقدار کے حامل کئی علاقوں کا 21ویں صدی میں بھی صفحہء ہستی سے مٹ جانا اِک سوالیہ نشان ہے۔ پتہ نہیں اس معاملے میں انکوائری تاخیر کا شکار کیوں ہوتی ہے؟ رینجر ہنگامی حالات میں عوام کو اس کرب سے نجات دلانے میں پیش پیش ہوتے ہیں مگر انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کے اخراج کے متعلق بھارت اطلاعات شیئر کرنے کا پابند ہے مگر بسا اوقات کشیدہ تعلقات کی وجہ سے انڈیا کسی بھی قسم کی تفصیلات کا تبادلہ نہیں کرتا۔ جس کے باعث پنجاب کے مشرقی دریاؤں ستلج اور راوی میں طغیانی اور سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ قصور، گنڈا سنگھ کے کئی نواحی دیہات زیر آب آنے سے کھڑی فصلوں کو بے پناہ نقصان پہنچتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبھی واقف ہیں۔ قدرتی آفات کو ٹالا تو نہیں جا سکتا لیکن بہترین حکمتِ عملی تمام سٹیک ہولڈرز کی باہمی ذہنی ہم آہنگی اور عوام میں شعوری آگاہی کے ذریعے ان آفات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی شدت کو ممکنہ حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔