کالج میں داخلے کے فارم ہمیشہ ابو ہی بھرا کرتے تھے ۔ کہاں تصویر لگنی ہے کہاں دستخط کرنے ہیں ابو ہی بتایا کرتے تھے ۔ یہ ایک ایسی عادت تھی جو پختہ ہوتی جا رہی تھی۔ امی کی دور سے آواز آیا کرتی تھی کہ اپنے فارم خود بھرو۔ رفتہ رفتہ خود بھرنے شروع کر دئیے لیکن ابو کی نگرانی میں۔ سب سرٹیفیکیٹ ، تصویریں ، مارک شیٹس ابو کی حفاظت میں ہی ہوتے تھے ۔ گویا پڑھ تو ہم رہے تھے لیکن ڈگری کے دھاگے ابو سی رہے تھے ۔۔۔
دھیرے دھیرے اتنے عقلمند ہو گئے کہ اب ابو کو بتانے لگے کہ اس خانے میں یہ لکھنا ہے اور اس خانے میں وہ۔۔۔۔
لیکن جب بڑی ڈگری ہاتھ میں آ گئی تو نجانے کیوں سکول کا وہ زمانہ یاد آیا جب سکول کی کتابوں کاپیوں پر براؤن کور چڑھانا دنیا کا مشکل ترین کام لگتا تھا۔ سب کونے برابر ہونے چاہئیں۔ٹیپ نظر نہیں آنی چاہئے ۔ ایسے میں قینچی ، براؤن پیپر ، سکواش ٹیپ لئے ابو آ جاتے تھے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتابیں کاپیاں بالکل نئی جیسی لگنے لگتی تھیں۔ پھر ابواس بلیو مارکر سے اس پر ہمارا نام لکھا کرتے تھے ۔بستے میں خوشبو والی جیومیٹری پنسل ربڑ بھی آ جاتا تھا۔۔ہم سارا دن اپنی نئی چیزوں کے خمار میں رہتے تھے ۔۔۔
جس دن آخری بڑی ڈگری بھی مل گئی۔۔اس دن بہت سے لوگوں نے کہا کہ چلو جان چھوٹی اب مزید کچھ سیکھنا نہیں پڑے گا۔میں نے لاپروائی سے ڈگری میز پر رکھی اور فیس بک پر کامیابی کی مبارکبادیں وصول کرنے لگا۔۔ایسے میں ابو آئے اور میری ڈگری کے اوپر ایک شفاف کور چڑھا کر بڑی حفاظت سے ایک اونچی جگہ پر رکھ دیا۔
مجھے احساس ہوا کہ والدین آپ کو احساس ، محبت اور خیال کا ایک حرف روزانہ سکھاتے ہیں۔۔۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024