جمعۃ المبارک‘16 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 7؍ اگست 2020ء
نقشے میں تبدیلی سے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے
یہ مروڑ تو معمولی بات ہے۔ اسے تو باقاعدہ خونی پیچش لگی ہوئی ہے کہ یہ پاکستان نے کیا کر دیا۔ اس سے دنیا بھر میں کیا پیغام جائیگا۔ آج تک اس نے اٹوٹ انگ کے نام پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی جو کوشش کی ہے۔ اس جھوٹ کا اثر زائل ہونے لگے گا۔ دنیا کو پوری شدت سے ایک بار پھر معلوم ہو گا کہ کشمیر ایک زندہ جیتا جاگتا مسئلہ ہے۔ جو بھارت کی ہٹ دھرمی اور منافقت والی سیاست کی وجہ سے آج تک حل نہیں ہو سکا۔یہ سوا کروڑ سے زیادہ انسانوں کو بھارت نے زبردستی غلام بنا رکھا ہے۔ مگر یہ کشمیری 72 برسوں سے اٹوٹ انگ کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی منزل پاکستان ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے ہر گاؤں ہر شہر میں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔ اب پاکستان نے بھی ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے۔ اپنے قومی نقشے میں ریاست جموں و کشمیر کو باقاعدہ اپنا حصہ دکھاتے ہوئے جوقدم اٹھایا ہے۔ وہ دراصل انہی کشمیریوں کے جذبات کی ترجمانی ہے۔جو ہمہ وقت دل دل پاکستان، جان جان پاکستان کے نعرے لگاتے ہیں۔ بھارت جو چاہے کر لے مگر یہ نقشہ ایک حقیقت ہے۔ آج نہیں تو کل کشمیر پاکستان میں شامل ہو کر رہے گا۔ اٹوٹ انگ کا نعرہ لگانے والوں کا نظریہ ردی کی ٹوکری میں دفن ہو کر رہے گا۔ اب چاہے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھے یا اسے کرونا بخار ‘ اسے کشمیر کو چھوڑنا ہو گا۔ یہ نقشہ کشمیریوں کی منزل ِآزادی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
٭٭٭٭٭
پنجاب پولیس میں گریڈ 17 سے 21 تک کے افسران کی تنخواہوں میں ڈیڑھ لاکھ تک اضافہ
مشہور کہاوت ہے۔’’مایا کو ملے مایا کر کر لمبے ہاتھ‘‘ یہ کہاوت پولیس افسران کی تنخواہوں میں اضافہ کی خبر پر منطبق نظر کرتی ہے۔ پیسہ ہمیشہ پیسے والوں کا ہی رخ کرتا ہے۔ یہ معاشیات کا بھی اصول ہے۔ پیسہ پیسے سے ہی کمایاجا سکتا ہے۔ اب جن کے پاس مایا یعنی مال ہو ہی نہیں وہ بے چارے کہاں سے مالدار بنیں گے۔ پولیس ملک کا وہ خوش قسمت محکمہ ہے۔ جہاں واقعی ’’ہن برستا ہے‘‘۔ نیچے سے لے کر اوپر تک سارے نہ سہی مگر اکثر ملازم اوپر والا جب بھی دیتا ہے دیتا ہے چھپر پھاڑ کے پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ ان کی وردی کے خوف سے لوگ انہیں بخوشی نذرانے یا سلامی کی شکل میںکچھ نہ کچھ ضرور پیش کرتے ہیں۔ جسے وہ مسکراتے ہوئے قبول کر لیتے ہیں۔ انکی اسی انکساری اور منکسر مزاجی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اعلیٰ پولیس افسران کی تنخواہوں میں جو شاہانہ اضافہ کیا ہے وہ کوئی عجیب بات نہیں۔ آخر صوبے کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت کو پولیس کی ہی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اس لیے کارکردگی ہو یا نہ ہو انہیں خوش رکھا جاتا ہے۔ اب عام آدمی کو جس طرح اس خبر سے حیرت یا تکلیف ہوئی ہو گی۔ اس سے زیادہ تکلیف گریڈ 16تک کے ملازمین کو بھی ہوئی ہو گی۔ جن کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ وہ دانت پیستے ہوئے دل کی بھڑاس نکال رہے ہونگے۔ نجانے کیوں حکومت نے انکے پیٹ پر لات ماری۔ شاید حکومت سمجھتی ہے کہ انکے پیٹ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭
مظفر آباد میں لال چوک کا افتتاح
پنجاب کے ہر ڈویژن میں ایک سڑک کا نام سرینگر ہو گا
لال چوک مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کا دل ہے۔ یہ کشمیر کا سیاسی بیرومیٹر بھی کہلاتا ہے۔ یہاں ہڑتال کا مطلب پورے شہر کا شٹر ڈائون ہوتا ہے۔ جلسہ ہو یا جلوس وہی کامیاب سمجھا جاتا ہے جو لال چوک میں رونق لگائے۔ یہ مائسمہ کے علاقے میں واقعہ ہے جہاں ہمہ وقت بھارتی فوج الرٹ رہتی ہے۔ یہ علاقہ مظاہروں ، ہڑتالوں اور بھارتی فوج کے ساتھ تصادم کی وجہ سے سارا سال بھارت کیلئے درد سر بنا رہتا ہے۔ اگر حالات نارمل ہوں تو یہ سیاحوں اور خریداری کرنیوالوں سے بھرا رہتا ہے۔یہاں کشمیر کے ہر علاقے کے لوگ آئے ہوتے ہیں۔ اس چوک کے وسط میں کھڑا لال چوک کا مینار کشمیریوں کے عزم و ارادے کی طرح ڈٹا ہوا نظر آتا ہے۔ جس پر ہر مظاہرے کے دوران اور خاص طور پر /14 اگست کو پاکستان کا پرچم ضرور لہرایا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت اور فوج کی بھرپور مدد کے باوجود /15 اگست کو یہاں بھارتی ترنگا لہرانے کی ہر کوشش ناکام و نامراد ہوتی ہے۔ فوج کے پہرے میں بھی گنتی کے تین چار افراد بھی یہاں جمع ہونے کو تیار نہیں ہوتے۔ گزشتہ روز سری نگر کے لال چوک کی طرح مظفر آباد میں بھی وزیراعظم آزاد کشمیرنے لال چوک کا سنگ بنیاد رکھا ۔ یوم استحصال کشمیر کے موقع پر لال چوک مظفر آباد کا سنگ بنیاد رکھنا اور اسلام آباد میں سری نگر ہائی وے کا قیام لاکھوں کشمیریوں کے دل کی آواز ہے۔ یہ وہی دل ہیں جو ہم پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ دل پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں اور کشمیر کی آزادی کے لیے ہر وقت تیار بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی صوبے کے ہر ڈویژن میں ایک سڑک کا نام سرینگر روڈ رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
٭٭٭٭٭
وزرائے تعلیم کانفرنس میں تعلیمی ادارے 15 ستمبر سے کھولنے کی فیصلے کی تائید
یہ اچھا فیصلہ ہے۔ اس کی زیادہ خوشی طلبہ کے والدین کو ہو گی جو سکولوں کالجوں کی طویل بندش سے ناخوش ہیں۔ آفت کے یہ پر کالے بچے سکول نہ جانے کی وجہ سے گھروں میں جو ادھم مچائے رکھتے ہیں اس کا اندازہ تقریباً تمام والدین کو ہو چکا ہے اور وہ اس تجربے سے خاصے پریشان بھی ہیں کیونکہ بچوں کو سنبھالنا سب سے مشکل کام ہے۔ اس طرح کالج اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ذرا بڑے بچے بھی کچھ زیادہ سکون والے نہیں ہوتے۔ انہیں قابو کرنا آسان نہیں ہوتا۔ چھوٹے بچوں کو تو ڈرا دھمکا کر دبکایا جا سکتا ہے مگر ان بڑے بچوں کا کیا کیاجائے جو منہ زور طوفان کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیںتو گھروں میں قید بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چھوٹے بچوں سے زیادہ ہی من موجی ہوتے ہیں۔ والدین بھی ان سے زیادہ اُلجھنے کا یارا نہیں رکھتے۔ اب 15 ستمبر کے بعد تعلیمی ادارے کھلنے سے ہی والدین اطمینان کا سانس لیں گے۔ جب یہ آندھی اور طوفان جیسے بچے سکول اور کالجز کا رخ کریں گے۔ ویسے بھی اتنی طویل چھٹیوں سے ان کی تعلیم کا بھی کافی ہرج ہو چکا ہے۔ اب اساتذہ کو بھی زیادہ محنت اور تیاری کرانا ہو گی تاکہ جو تعلیمی ہرج ہو چکا ہے اسے پورا کیا جا سکے۔ بچوں کو بھی خوب محنت کرنا ہو گی تاکہ وہ دوبارہ اپنی فارم پر واپس آ سکیں۔ یوں تعلیمی ادارے کھلنے سے گھروں سے روٹھا ہوا آرام اور سکون بھی دوبارہ واپس آ سکتا ہے۔ جس کے لیے والدین ترس گئے ہیں۔