جنونی ہاتھ نہ روکا گیا تو مودی عالمی امن غارت کر دیگا
بھارت کی پھر پسپائی ‘ سلامتی کونسل کے اجلاس میں مقبوضہ وادی کی صورتحال پر غور
بھارت کی عالمی سطح پر ایک اور پسپائی ہوئی ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں ہونیوالا اجلاس کوشش کے باوجود نہ روک سکا۔ اجلاس میں ایک بار پھر بھارت کے غیر قانونی قبضے والے جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر غور کیا گیا۔اور اجلاس میں بھارت کے غیر قانونی قبضے والے جموں و کشمیر (مقبوضہ کشمیر) اور شام کی صورتحال پر رپورٹ پیش کی گئی۔ ترجمان دفتر خارجہ کیمطابق اجلاس پاکستان کی درخواست پر بلایا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ کشمیری اپنے حوصلے بلند رکھیں، پاکستان ساتھ کھڑا ہے۔ انشاء اللہ کشمیریوں کی فتح ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اجلاس بلانے پر سلامتی کونسل کے ممبران کا مشکور ہوں۔ تیسری بار سلامتی کونسل کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر بحث ہوئی۔‘‘
بھارت میں اہل علم اور ذی شعور لوگوں کی کمی نہیں تاہم جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ بھارتی ہندوئوں کے دل و دماغ میں شدت پسند ہندو قیادتوں نے مسلمانوں اور پاکستان کیخلاف دشمنی اور نفرت کے جذبات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کانگرس کی اندراگاندھی نے پاکستان کے غداروں کی مدد سے پاکستان دولخت کیا اور دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا متکبرانہ ’’بھگوانی دعویٰ‘‘ کردیا اور مودی نے پاکستان توڑنے میں حصہ لینے کا دعویٰ بھی کر دیا۔ یہ باتیں مودی نے بنگلہ دیش میں کھڑے ہو کر کی تھیں۔ دو قومی نظریہ ڈوب گیا ہوتا تو بنگلہ دیش آزاد مسلمان ملک نہیں، اکھنڈ بھارت کے پرچم تلے آچکا ہوتا۔ آج یہی بنگلہ دیش مودی سے متنازعہ علاقے بلاتاخیر چھوڑنے کا مطالبہ کررہا ہے اور وزیراعظم بنگلہ دیش مودی کا ڈھاکہ میں استقبال کرنے سے انکار کررہی ہیں۔
مودی ہندو شدت پسندانہ جذبات کو مہمیز دیتے ہوئے دوسری ٹرم میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی پوزیشن میں آئے اور دو تہائی اکثریت ملتے ہی ایسے فیصلے کئے جو بھارت کی سبکی اور خطے میں بدامنی کی آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بنے۔ مودی نے اپنی جہالت کی بنیاد پر ان مضمرات اور خرابیوں پر غور نہیں کیا تھا جن کا سامنا آج انکے کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے کے اقدام پر بھارت کو ایک سال سے کرنا پڑرہا ہے۔ گھس کے ماریں گے‘ سرجیکل سٹرائیک کرینگے‘ کشمیریوںکو باندھ کر رکھ دیں گے۔ یہ مودی کے دعوے تھے مگر گھس کے کیا مارا‘ سرجیکل سٹرائیک کیا کی‘ پوری دنیا کو دو جہاز گروانے‘ ایک پائلٹ کو مروانے اور دوسرے کو گرفتار کرانے کے عمل سے پتہ چل گیا۔ مودی کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں ہی کے موجب لداخ میں چینی فوج نے بھارت کا داغدار چہرہ مزید کالا کر دیا۔ 60 کلو میٹر کے متنازعہ علاقے پر چین کا تسلط ہے‘ ان علاقوں کو خالی کرانے کیلئے مودی سرکار گھس کے مارنے کی بات کرتی ہے نہ سرجیکل سٹرائیک کے بارے میں غور کرتی ہے۔ نیپال اور بھوٹان کو بھارت کی طفیلی ریاستیں سمجھا جاتا تھا‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی اسکے زیراثر گردانے جاتے تھے مگر آج یہ چھوٹے اور بھارت کی نظر میں ناتواں ممالک بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ بھوٹان اور بنگلہ دیش نے اپنے علاقوں پر کلیم ظاہر کیا جبکہ نیپال نے اسی طرح کا نقشہ جاری کر دیا جیسا بھارت نے دو ماہ قبل جاری کیا تھا اور پاکستان نے بھی جواب میں 4؍ اگست کو جاری کیا ہے۔ بھارت کے اندر بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ عروج پر ہے۔ یہ سب مودی کی حماقتوں اور جہالت پر مبنی پالیسیوں اوربصیرت کی پستی کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ سال 5؍ اگست کو اس نے مقبوضہ وادی پر اس کی خصوصی حیثیت ختم کرکے شب خون مارا اور کشمیریوں کو شدید ترین پابندیوں میں جکڑ دیا جس سے انسانی المیہ نے جنم لیا جو شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جہاں ایک سال سے کرفیو نافذ ہے وہیں آزاد میڈیا اور غیرجانبدار انسانی حقوق کی تنظیموں کے داخلے پر پابندی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں انتہا کا اضافہ ہوگیا ہے۔ وادی میں نہتے‘ مظلوم اور معصوم کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم دنیا سے اوجھل رکھنے کی بھارت نے اپنی سی کوشش کی ہے مگر بہت ہی کم ان مظالم کا حصہ دنیا کے سامنے آتا ہے۔ وہ بھی انسانیت کو جھنجوڑنے اور رونگٹے کھڑے کردینے کیلئے کافی ہے۔ اس پر عالمی برادری کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایک سال میں تین بار اس معاملے پر بات کی‘ صدر ٹرمپ ثالثی کی پیشکشوں کا اعادہ کرتے رہے ہیں گو یہ معاملہ ثالثی نہیں انصاف، اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے مگر یہاں بھی بھارت کی رعونت سامنے آتی ہے۔
مودی سرکار ایسی پیشکشوں کو مسترد کرتی جارہی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں دنیا کمزور نہیں ہے‘ مقبوضہ وادی میں بربریت پر عالمی سطح پر مذمتیں ہو رہی ہیں‘ تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے مگر اب یہ لاحاصل ہے۔ اب اس بدمست ہاتھی کا علاج کرنا ہوگا۔ اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ کشمیر کاز کیلئے پوری قوم متحد نظر آتی ہے۔
یوم استحصال کشمیر پر پورے ملک میں سیاسی وابستگیوں سے بالا ہو کر مظاہرے کئے گئے‘ وزیراعظم اور صدر کے خطابات نے خصوصی طور پر کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کیا اورقوم کو متحد ہونے کا پیغام دیا۔ سینٹ پنجاب اور سندھ اسمبلیوں میں کشمیریوں کے ساتھ یگانگت کی قراردادیں منظور کی گئیں۔ کشمیر آج سلگتا ہوا ایشو بن چکا ہے‘ مظلوم کشمیریوں کی نظریں اقوام عالم اور اقوام متحدہ پر مرکوز ہیں۔ اقوام متحدہ کے کرتا دھرتائوں کے ضمیر کو کشمیریوں پر ہونیوالی بربریت جھنجوڑ دے تو مسئلہ کشمیر جلد حل ہو سکتا ہے۔