مَیں 26 نومبر 1936ء کو مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاست نابھہ میں پیدا ہُوا۔ تحریکِ پاکستان میں نابھہ، پٹیالہ اور امرتسر میں میرے خاندان کے 26 افراد شہید ہُوئے۔ اُن میں میرے چچا رانا فتح محمد اور پھوپھا چوہدری محمد صدیق ، سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہُوئے۔ مسلمانوں کے خلاف سِکھوں کی پُر تشدد کارروائیاں تیز ہوگئیں تو ہمارا خاندان نابھہ سے ریاست مالیر کوٹلہ شفٹ ہوگیا تھا۔ یومِ آزادی کے اعلان سے کچھ دِن پہلے مسلمان نواب آف مالیر کوٹلہ کے گارڈز کی حفاظت میں ایک خصوصی ٹرین پر دو اڑھائی سو مسلمانوں کے ساتھ ہمارا خاندان قصور کی طرف روانہ ہُوا۔
راستے میں ہر ریلوے سٹیشن پر مسلح سِکھوں کے جتھوں نے کئی بار ٹرین پر حملہ کرنے کی کوشش کی جو ہمارے گارڈز نے ناکام بنا دی ۔ فیروز پور سے آگے سِکھوں نے ریلوے لائن اکھاڑ دی تھی۔ ہمارے گارڈ ز ہمیں ایک کُھلے میدان میں لے آئے ۔ چاروں طرف اندھیرا تھا ۔ دُور سے قریب آتے ہُوئے سِکھوں کا ’’ ست سری اکال‘‘ کا نعرہ سُنائی دے رہا تھا ۔ تمام مسلمان مرد یہ فیصلہ کرنے ہی والے تھے کہ ’’ کیوں نہ ہم اپنی عورتوں اور بچوں کو قتل کر کے اور سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہو جائیں؟‘‘ کہ اچانک اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کے لئے اپنا لشکر بھیج دِیا ۔ وہ بلوچ رجمنٹ کے افسران اور جوان تھے ۔
بلوچ رجمنٹ نے سِکھوں کی طرف فائرنگ کی تو وہ بھاگ گئے۔ صبح کو ہم سب قصور کے مہاجر کیمپ میں تھے اور دوسرے دِن لاہور کے والٹن کیمپ میں ۔ سرگودھا میں میرے والد صاحب کی تحریکِ پاکستان کے دو کارکنوں قاضی مُرید احمد اور حکیم خورشید احمد سے دوستی ہوگئی جو بعد میں میرے بہت کام آئی۔ مَیں نابھہ میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان کی شفقت اور محبت سے سرگودھا میں سکول سے باہر بھی مجھے علمی و ادبی ماحول مِلتا گیا ۔مَیں نے 1956ء میں اُردو اور پنجابی میں شاعری شروع کردی اور 1960ء میں مسلکِ صحافت اختیار کِیا۔ 1961ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا سے گریجویشن کی۔
مجھے صحافی/ کالم نویس کی حیثیت سے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے آدھی دُنیا دیکھنے کا موقع مِلا۔ 1973ء اور 1991ء میں جمہوریہ تُرکیہ میں استنبول کے طوپ کاپی میوزیم میں پیغمبر انقلابؐ اور خلفائے راشدینؓ کے تبرکات کی زیارت کی۔ 1981ء میں ابو ظہبی کی مسجد العَین ،یکم جنوری 1988ء کو ماسکو کی جامع مسجد اور 2002ء میں نیو جرسی (امریکہ) کی جامع مسجد میں خطاب کا موقع مِلا۔ یہ میری زندگی کا حاصل ہے کہ مَیں ’’ نوائے وقت‘‘ کا کالم نگار تھا جب جنابِ مجید نظامی کی شفقت سے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ ستمبر 1991ء میں مجھے خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی ۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو مجھے غلام ہندوستان میں رہ کر یہ اعزاز کیسے مِلتا؟
مجھے اپنے چار بیٹوں ، ذوالفقار علی چوہان، افتخار علی چوہان، انتصار علی چوہان اور انتظار علی چوہان کو لاہور میں نوابوں اور جاگیر داروں کے لئے قائم کئے گئے ۔ ایچی سن کالج میں پڑھانے کا موقع مِلا۔ پھر اُنہوں نے "Students`s Visa" پر اپنی مدد آپ کے تحت امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اب وہاں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں ۔ 21 دسمبر 2002ء کو نیو یارک میں مقیم میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کو اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا۔ مَیں نے اپنے بڑے پوتے شاف علی چوہان کی پیدائش پر پنجابی میں ایک نظم لِکھی جِس کا عنوان تھا ’’میرا لہو امریکی ہویا ‘‘ …
اپریل 1976ء میں میری اہلیۂ بیگم نجمہ اثر چوہان ، بیگم نُصرت بھٹو کی سیکرٹری عابدہ کھوکھر کی بڑی بہن رُکن پنجاب اسمبلی ناصرہ کھوکھر کو ہرا کر پیپلز پارٹی پنجاب کی سیکرٹری منتخب ہوئیں لیکن چیئرمین بھٹو نے پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشست کا ٹکٹ ناصرہ کھوکھر کو ہی دے دِیا۔ نجمہ نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی ۔ 11 اکتوبر 2008ء کو اُن کا انتقال ہُوا تو صدر زرداری نے الیکٹرانک میڈیا پر پیپلز پارٹی کے لئے اُن کی خدمات کا اعتراف کِیا۔ دراصل جنابِ زرداری کو اپنی پارٹی کی تاریخ کا عِلم ہی نہیں تھا اور نہ ہے۔
مَیں نے پنجابی زبان کے پہلے شاعر بابا فرید شکر گنج ؒ کے کلام کو سمجھنے کے لئے گور مکھی ( سکھی پنجابی) اور اجپوتوں کی تاریخ پڑھنے کے لئے ہندی زبان سیکھی۔ 2 دسمبر 2004ء کو مَیں نے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے بھارت کے شہر پٹیالہ میں پنجابی یونیورسٹی کے سائنس آڈیٹوریم میں ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کے علمدار سِکھ اور پاک پنجاب کے ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور صحافیوں کو ( اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے للکارا تھا ) کہ ’’پنجاب دی سرحدی لکیر چ میرے بزرگاں دا لہو وی شامل اے تے مَیں ایس لکِیر نُوں کدی وی نئیں مِٹن دیاں گا‘‘۔ اُس موقعے پر مَیں نے اپنی پنجابی کو ’’ لُوک مُکھی ‘‘ کا نام دِیا ۔ نومبر 2011ء کے میرے پنجابی جریدہ ماہنامہ ’’ چانن‘‘ لاہور کے شمارے میں پنجابی زبان میں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کا پہلا اور آخری انٹرویو شائع ہُوا جِس میں اُنہوں نے کہا کہ ’’ جیہڑے لُوک پنجاب دی سرحدی لکیر نُوں مٹاون دی گل کردے نیں اوہ ایتھوں (پاکستان سے ) دفع ہو جان‘‘۔ میرا دعویٰ ہے کہ پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب میں بولی اور لِکھی جانے والی پنجابی دو الگ الگ زبانیں ہیں ۔ میرا ایک شعر ہے ؎
’’ اِک مِک کر سکدا نئیں کوئی، گولا نہ کوئی گولی
وکھری پاک پنجاب دی بولی، وکھری سِکھّی بولی‘‘
18 دسمبر 2013ء کو ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے تحریکِ پاکستان میں خدمات انجام دینے پر میرے والد صاحب کا گولڈ میڈل میرے گلے میں ڈالا تو میرا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ 3 دِن بعد اسلام آباد میں میرے پوتے شاف علی چوہان کی سالگرہ تھی ۔ مَیں نے وہ میڈل اُس کے گلے میں ڈال دِیا ۔ چند روز پہلے جب ذوالفقار علی چوہان نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ شاف علی چوہان کو " "Excellent (اعلیٰ) طالبعلم کی حیثیت سے امریکی صدر براک اوبامہ کے دستخطوں سے "Outstanding Academic Excellence Education Award" دِیا گیا ۔تو مَیں آبدیدہ ہوگیا۔ اِس ایوارڈ کا آغاز امریکی صدر "Ronald Reagan" کے دور میں ہُوا تھا۔
20 فروری 2014ء کو لاہور میں چھٹی ’’نظریۂ پاکستان کانفرنس ‘‘ کے موقع پر جنابِ مجید نظامی کے مُریدِ خاص سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر میرا لِکھا ہوا مِلی نغمہ طلبہ و طالبات نے گایا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ مَیں آبدیدہ ہوگیا ۔ جنابِ نظامی کی طرف سے مجھے شیلڈ دی گئی اور ’’شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب بھی ۔ مَیں پھر آبدیدہ ہوگیا اور اُس وقت بھی جب ، نظامی صاحب نے میری طرف شفقت سے دیکھتے ہُوئے کہا کہ ’’ اثر چوہان صاحب! ہُن چھڈ کے نہ جاناں‘‘ مَیں نے پھر آبدیدہ ہو کر کہا کہ ’’سر! ہُن مَیں چھڈّ کے کِتھّے جاواں گا؟‘‘ تو معزز قارئین و قاریات! میرے پیارے پاکستان کے لئے میرا دِیدۂ تر ہی میرا دِیدۂ اُمّید ہے ۔ خاص طور پر اُن فرزندان و دُخترانِ پاکستان کے لئے جو وطن سے دور رہ کر اپنے بچوں کو پاکستان سے محبت کا سبق دے کر پروان چڑھا رہے ہیں ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024