اگر پاکستان 1992کا ورلڈ کپ ہار جاتا تو آج عمران خان کہاں ہوتے ؟ نوازشریف تو پھر بھی اپنی کاروباری معصومیت کھونے کے بعد سیاست ہی کررہے ہوتے۔یہ ورلڈکپ کی تاریخی فتح ہی تھی کہ پاکستان کو ایک بنابنایا ہیرو اور لیڈرمل گیابالکل ایسے ہی جیسے جنرل ضیاالحق کی نرسری سے ایک پالاپوساہوا نوازشریف ملک کے سیاسی باغ میں درخت کی مانند گاڑ دیا گیا تھا ۔جس کیلئے گہری جڑوں والے کئی پودے اکھاڑے گئے اور ذولفقار علی بھٹو ان میں سے اہم ترین تھا۔ ان دونوں لیڈروںمیں سے کسی نے بھی عوام کی مٹی میں دفن کسی بیج سے کونپل کی مانند جنم نہیں لیا،یعنی کسی عوامی تحریک کے نتیجے میں نہیں یا حاکم وقت کیخلاف آوازبلندکرکے نہیں جیسا کہ ذولفقار علی بھٹو نے کیا تھا ۔ فرق اتنا ہے کہ میاں صاحب نے ایک پرانے پودے کے طور پر اپنی سیاسی جڑیں پھیلالی ہیںاور خان صاحب کو ابھی وقت لگے گا ۔
اس ورلڈکپ سے پہلے بہت سے کپتان آئے اور چلے گئے مگر انہیں وہ مقام نہ ملا جو عمران خان کے نصیب میں آیا ۔ بدقسمتی سے میاں صاحب اور خان صاحب ابھی تک کاروبار اور کھیل کے گملوں کی مٹی سے پیچھا نہیں چھڑاسکے اور عوامی سیاست کی عام زمین میں جڑیں پھیلا نہیں پارہے۔ میاں صاحب نے سیاست کو کاروبار اور خان صاحب نے کرکٹ کا کھیل بنا دیا ہے ۔ دھاندلی کی ایل بی ڈبلیو اپیل مسترد ہونے کے بعد عمران خان اب پانامہ سے چلنے والی ہوا کے سنگ گیند کو ان سونگ کرانے کی کوشش میں ہیں ۔مگر میاں صاحب کو بھی کسی نے مشورہ دے رکھا ہے کہ بلے اور پیڈ کو ملا کر کھیلیں اور خان صاحب کے باؤنسر پر سر بچا لیں تو یہ آخری گیندیں بھی گزر جائینگی ۔ اسکے بعد ایک نئے میدان میں نئے ایمپائر کے ساتھ ایک نیا میچ وقت مقررہ پر ہو جائیگا ۔ مگر خان صاحب نے بھی میاں صاحب کی وکٹ گرانے کے واسطے بڑی جارحانہ فیلڈنگ لگا رکھی ہے ۔گیند کو وکٹ کے پیچھے پکڑنے کے ماہر شیخ رشید صاحب نے وکٹ کیپنگ سنبھال رکھی ہے اور اس سے زیادہ ان کی مہارت میدان میں فیلڈروں کی ہمت بندھاتے رہنا اور بلے باز کو اپنے چٹکلوں اور آوازوں سے غصے یا غیرت میں لا کر غلطی کرنے پر مجبور کر نا ہے ۔شیخ صاحب جس طریقے سے خان صاحب کو گیند ’’ ادھر ہی رکھ ‘‘ یا ’’ تھوڑی اوپر رکھ ‘‘ کے مشورے دے رہے ہیں اور شاباشی کے نعرے بلند کر رہے ہیں ۔اسکے بعد خان صاحب بھی محض ’’ تخت یا تختہ ‘‘ کے یارکر یا باؤنسر مارے جارہے ہیں ۔خان صاحب کی ہر گیند پر شیخ صاحب جس طرح بھنگڑا ڈال کر اپیل کرتے ہیں اس پر ایمپائر صاحب کو بھی اپنی صلاحیتوں پر شک ہو جاتا ہے ۔ وکٹ کیپر شیخ صاحب اپیل مسترد ہونے کے بعد اتنے ہی اعتماد سے ایمپائر کے آؤٹ نہ دینے کے فیصلے کو سراہتے ہیں ۔ جس اعتماد سے وہ بلے باز کے آؤٹ ہونے کی اپیل کرتے ہیں ۔ ایمپائر کی ایمانداری اور شرافت کی مثال دیتے ہوئے بلے باز کو یہ بھی کہتے ہیں کہ خود ہی پویلین لوٹ جاؤ تو بہتر ہے ۔ خان صاحب کی ٹیم میں ایک فیلڈنگ اسپیشلسٹ بھی ہیں جو بارہویں کھلاڑی کی طرح کسی کھلاڑی کے زخمی ہونے یا فوت ہوجانے کا انتظار کرتے رہتے ہیں ۔
ایسے مظلوم یا مرحوم جنتی کھلاڑی کیلئے وہ کفن اور تابوت ساتھ لیے پھرتے ہیں زیادہ وقت ان صاحب کا کھیل کے میدان سے باہر موقع کے انتظار میں گزرتا ہے ۔ مگر جب بھی انہیں میاں صاحب کی شاٹوں کو روکنے کا موقع ملا تو انہوں نے ساؤتھ افریقہ کے جانٹی رہوڈز کی مانند چھلانگیں لگائیں ۔جی ہاں یہ فیلڈنگ اسپیشلسٹ ہیں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جن کے میدان میں اترتے ہی بلے باز میاں صاحب کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ انکی لگائی ہوئی شاٹ قادری صاحب کی طرف نہ ہی جائے تو اچھا ہے ۔ مگر خان صاحب بھی شاطر باولر ہیں ۔جان بوجھ کر قادری صاحب کو بلے باز کے قریب سلی مڈ پوائنٹ پر تعینات کر رکھا ہے ۔ قادری صاحب اس پوائنٹ پر پہلے جو چوٹ کھا چکے ہیں وہ گیند کی نہیں بلکہ میاں صاحب کے بلے کی تھی جو انکے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا یا کم ازکم ان کا دعوی تو یہی تھا ۔ مگر الزام یہ تھاکہ یہ بلا چھوٹا نہیں بلکہ جان بوجھ کر چھوڑا گیاتھا ۔
خان صاحب کو قادری صاحب کی پرانی چوٹ کا خوب ادراک ہے اور وہ جانتے ہیں کہ بلے باز کم ازکم قادری صاحب کو ویسی ہی چوٹ سے بچانے کی کوشش میں غلطی ضرور کرینگے ۔ پریشان تو خیر سے قادری صاحب بھی ہیں جن کے پرانے زخم ابھی بھرے نہیں ۔ خان صاحب نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ سلی مڈ پوائنٹ پر کھڑے قادری صاحب کی خاطر گیند کا ٹھپہ ایسی جگہ دیا جائے کہ میاں صاحب کا بلا نہیں تو کم ازکم انکی شارٹ ہی قادری صاحب کے زخم ہر ے کر دے ۔ ایسے میں شیخ صاحب کی وکٹ کے پیچھے سے قادری صاحب کو ـ ’’ نیڑے ہو جاؤ، نیڑے ہو جاؤ ‘‘ ( قریب ہو جاؤ) کا مسلسل مشورہ دے رہے ہیں۔ میاں صاحب کچھ عرصے کیلئے اپنی کریز سے باہر نکلے تو شیخ صاحب نے گیند سے انکی وکٹیں گرا کر اسٹمپ آؤٹ کا رولا ڈال دیا تھا ۔ صورتحال شارجہ کپ کے اس فائنل کی ہے کہ جب وکٹ کے ایک جانب جاوید میاں داد اور دوسری جانب توصیف احمد تھے۔ میاں صاحب تو بہرحال ایسے بیٹنگ کر رہے ہیں کہ جیسے وہ آخری کھلاڑی اور امید کی آخری کرن ہوں اور وکٹ کی دوسری جانب تو جیسے کوئی ہے ہی نہیں ۔ویسے بھی میاں صاحب کی کرکٹ ڈکشنری میں وکٹ پر وہ اکیلے ہی کھیلتے ہیں باقی سب صرف انکے رنز مکمل کرنے کیلئے بلے لے کر بھاگتے ہیں ۔ میاں صاحب کو وکٹ کے دوسرے اینڈ پر جاوید میاںداد نہیں بلکہ توصیف احمد جیسوں کی ضرورت رہتی ہے۔ حالانکہ اس وقت وہ توصیف احمد والا ایک بروقت اور ضروری رن لینے سے بھی قاصر نظر آ رہے ہیں ۔ میاں صاحب کی مسلم لیگ ن الیون کا یہ حال ہے کہ جب پانامہ سے چلنے والی تیز ہوا میں خان صاحب کی ایک ان سونگ گیند نے ان کے سینے پر وار کیا اور انھیں عارضی طبی امداد کیلئے باہر جانا پڑا تو میچ کو انکے صحت یاب ہونے تک روکنا پڑا اور اب جب میاں صاحب سانس بحال کر کے واپس میدان میں اتر چکے ہیں تو پانامہ کی ہوا آ کر جا بھی چکی ہے ۔ پچ پر خشکی اتنی بڑھ چکی ہے کہ تھوڑی سی نمی کیلئے خان صاحب اپنے تھوک کا سہارا لے رہے ہیں ۔ سٹیڈیم کے تماشائیوں کیلئے تھوک سے پکوڑے تو تلے جا سکتے ہیں یا گیند تو گیلی کی جا سکتی ہے مگر پچ کی خشکی میں نمی کی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ فی الوقت تو ایمپائر صاحب نے کالے چشمے لگا رکھے ہیں اور وکٹ کے پیچھے شیخ صاحب کو یہ زعم ہے کہ ان کالے چشموں کے پیچھے والی آنکھیں کی انہی پر ہیں ۔ خان صاحب کی لائن اور لینتھ کا وکٹ کیپر کو بخوبی اندازہ ہے اس لئے ان کا زیادہ زور کالے چشموں والی سرکار کو یہ سمجھانے میں لگ رہا ہے کہ ’’ استاد جی کچھ کرلو۔۔۔ ٹائم تھوڑا اے ‘‘ ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024