میں نے پاکستان بنتے دیکھا
ماجد علی شاہ.....302اقبال ایونیوجوہرٹاؤن لاہور
1947میں ہم امرتسرچبوترہ چوک میں رہائش پذیر تھے۔ ہم سے 1/2فرلانگ پر کالم نویس عطاء الحق قاسمی کے والد محترم مولانا بہاؤالحق قاسمی اور میرے بہنوئی اور بھائی مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رہتے تھے۔میری عمر اس وقت چھ سال تھی بدقسمتی یا خوش قسمتی سے شعور کی حدوں کو چھونے لگا تھا اس لئے اس وقت کے ماحول کو اچھی طرح محسوس کرتا تھا۔ امرتسرکی فضاؤں میں اس وقت جونعرے گونجتے تھے وہ آج بھی میری سماعتوں میں محفوظ ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان، سکھوں اور ہندوؤں کے مسلمان علاقوں میں حملے اپنی ان آنکھوں سے دیکھے ہر طرف خون آگ امرتسرپورے کا پورا جل رہا تھا مسلمان جوانمردی سے ان کافروں کا مقابلہ کررہے تھے ۔ میں اپنی تایا زاد بہن مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی بیگم سے قرآن مجید پڑھتا تھا۔ ایک روز گھرواپسی پر سکھوں نے گھیرلیا ، کرپانوں کے وار کئے میں نے بے تحاشا بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ ہمارے ہمسائے میں خوبصورت نوجوان احمد کو سکھوں نے شہید کردیا۔ پھرپاکستان بن گیا۔ ہم نہایت کسمپرسی میں سب کچھ وہیں چھوڑ کرپاکستان میں سجدہ ریز ہوگئے ۔ امرتسرکے گردونواح کے دیہاتوں میں اب بھی وہ کنوئیں موجود ہیں جن میں نوجوان بچیوں نے کود کراپنی عزتیں بچائیں اور پاکستان کے نام کیں۔
امرتسرسے ہجرت کرنے والوں میں میرے سسر صوفی تبسم سیف الدین سیف سعادت حسن منٹو خواجہ پرویز اور دیگر بہت سے شامل تھے مزے کی بات ہے کہ ان میں سے کسی نے اپنے آپ کو مہاجرنہیں کہااور دکھ کی بات ہے کہ پاکستان بننے کے بہت بعد جو لوگ پاکستان بمعہ سازوسامان آئے یہاں تک کہ طوطے کا پنجرہ بھی ساتھ لائے وہ اپنے آپ کو مہاجرکہتے ہیں ہم سب سب سے پہلے مسلمان ہیں اور پھرپاکستانی صرف۔