فلسطینیوں کا خون ناحق اور ملکی مسائل
راؤ شمیم اصغر ۔۔۔ ملتان
غزہ کے مسلمانوں پر 28 روز تک آگ کی بارش اور وہاں پر ہر طرف تباہی و بربادی نے پوری امت مسلمہ کو جہاں دکھ اور کرب کی کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے اہل پاکستان کے دل بھی خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ وہ اس پر احتجاج کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی امداد کے خواہشمند تو ہیں لیکن بدقسمتی سے ملک بھر میں ایسا ماحول نہیں۔ یہاں صرف 14 اگست کے لانگ مارچ اور 10 اگست کے یوم شہدا کی بازگشت ہے۔ اس تلخ ماحول میں اسرائیل کی بربریت کے خلاف احتجاج ہو سکا ہے نہ ہی شمالی وزیرستان کے متاثرین کی امداد کیلئے کوئی عملی کام ہو پایا ہے۔ آئی ڈی پیز کی مشکلات ان کی ضرورت بھی لانگ مارچ اور یوم شہداء کے شور میں دب کر رہ گئی ہیں۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی ساری کوششیں کاوشیں صرف ایک ہی نکتہ پر محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ حکومتی جماعت بھی بھنور میں اس بری طرح پھنسی ہے کہ فلسطینی عوام اور آئی ڈی پیز کے لئے کچھ سوچنے کا وقت ہی باقی نہیں رہا۔ 14 اگست کو ہی ملتان میٹروبس منصوبہ کا افتتاح ہونا ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو یہ منصوبہ مکمل طور پر یہاں سے منتقل ہو جائے گا یا پھر جزوی طور پربن سکے گا۔
ملتان اور جنوبی پنجاب میں اس قسم کے ماحول میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی پارٹی عہدیدار آزادی مارچ اور یوم شہدا کو کامیاب بنانے اور ناکام بنانے کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے رہنما اپنے اپنے پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے سرگرم ہیں۔ تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود حسین قریشی نے جنوبی پنجاب کے بیشتر علاقوں جن میں دور دراز کے اضلاع راجن پور اور رحیم یار خاں شامل ہیں کے دورے کئے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ٹاسک مل چکا ہے اور ہزاروں افراد کو اسلام آباد لیجانے کے دعوے بھی ہو رہے ہیں۔ گرمی اور حبس کے اس شدید موسم میں بظاہر یہ دعوے پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ تحریک انصاف میں ہر جگہ گروپنگ ہے۔ رحیم یار خاں میں تو اس وقت یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود حسین قریشی ضلع رحیم یار خاں اور ضلع بہاولنگر کے پارٹی رہنماؤں اور ٹکٹ ہولڈرز سے جب خطاب کر رہے تھے تو اس وقت یوتھ ونگ کے دو گروپوں میں تصادم ہو گیا اور جلسہ الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعددھڑے بندی اور بھی شدت اختیار کر گئی ہے۔ ملتان میں اگرچہ ایسا واقعہ پیش نہیں آیا لیکن دھڑے بندی یہاں بھی عروج پر ہے۔ بلکہ کچھ پارٹی رہنما تو یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی انتہا ہوگئی تھی دوسروں سے کیسے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے؟
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے گزشتہ دو روز ملتان اور ڈیرہ غازیخان میں گزارے ہیں۔ ان کے دورے کا مقصد محکمانہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ملتان میں میڈیا سے گفتگو کے بعد وہ جناب مجید نظامی کے انتقال پر اظہار تعزیت کیلئے نوائے وقت کے دفتر بھی آئے جہاں وہ حسب عادت کھل کر بولے ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن جب بھی اقتدار میں آتی ہے سازشیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ کبھی بھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ وہ بار بار اس بات کو دہراتے رہے کہ کسی کا ایجنڈا میاں نوازشریف کو ہٹانا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ الیکشن میں کہیں خرابی ہوئی ہے تو اس کے لئے عدالتیں ٹریبونل اور الیکشن کمشن موجود ہے۔ عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ اس وقت پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ ملک میں اس وقت مارچ کی نہیں بلکہ فوج کا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ملک میں انتشار کی سیاست کرنے والے خود ماضی میں حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ ہم مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس بات کو ہماری کمزوری بھی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ انہوں نے ایک دلچسپ بات بھی کہی کہ طاہرالقادری جب ناموس رسالت قانون کی مخالفت کرتے ہیں تو انگریزی میں بات کرتے ہیں لیکن اردو میں بات کرتے ہیں تو ناموس رسالت پر جان بھی قربان کرنے کا کہتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان سے کہا کہ وہ دھاندلی کا شور مچانے کی بجائے اپنے پارٹی صدر جاوید ہاشمی کے الیکشن کی بھی خبر لیں جن پر دھاندلی کے ذریعے جیت کا الزام ہے۔ اسی طرح جہانگیر ترین کی شکست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حیرت ہے کہ وہ یہ الزام بھی مسلم لیگ ن پر رکھتے ہیں۔ حالانکہ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کا امیدوار بھی ہار گیا تھا اور کامیابی آزاد امیدوار کو ملی تھی۔
الزام تراشیوں اور حکومتیں گرانے کے شور شرابے میں عام آدمی پریشان اور یہ سوال کرتا نظر آتا ہے کہ عراق ‘ مصر‘ لبنان‘ فلسطین کے بعد پاکستان کونشانہ بنانے کی سازش تو تیار نہیں ہو چکی اور کیا ہم اس سازش کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم اپنے ہاتھوں اپنی آزادی کو سلب کرنے جا رہے ہیں۔ محاذ آرائی کی سیاست کرنے والے اس حد تک نہ جائیں کہ جس کے بعد ملک کی بقاء داؤ پر لگ جائے گی۔