میں مطلوب وڑائچ کا کالم پڑھتا ہوں کیونکہ ان کے کالم کے ذریعے میری ملاقات پرانے جیالوں اور ان کی خدمات سے اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کے حاکموںکے ان کے ساتھ حسن سلوک سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔ یہ شکوہ صرف وڑائچ صاحب کو ہی نہیں ہو گا بلکہ ہزاروں جیالوں، متوالوں، نوجوانوں، بھائیوں و دیگران کے ساتھ ہوا ہے، ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا اور اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ
مرے تھے جن کے لئے وہ رہ گئے وضو کرتے۔
مطلوب وڑائچ نے آج کے” کالم زرداری کی امریکہ یاترا، سکینڈل اور انکشافات“ میں ڈاکٹر رے کا ذکر کیا ہے رے کا اصل نام رفعت ہے۔ وہ نہایت نفیس انسان، ملنسار، خاطر وتواضع والا کردار رکھتا ہے مطلوب لکھتے ہیں کہ رے نے بتایا کہ انہوں نے اپنے کام کا آغاز پٹرول پمپ پر ملازمت سے کیا اور آج ماشااللہ نہایت کامیاب بزنس مین ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ قابل فخر ہے۔ ان کی بیگم شائستہ میری بیٹیوں کی طرح ہے صرف نام ہی نہیں بلکہ ایک ”شائستہ“ خاتون ہے اور میری بیٹی کی بیسٹ فرینڈ ہونے کے رشتہ سے میں اسے اپنی بیٹی ہی کہہ سکتا ہوں وڑائچ صاحب نے کچھ اور بھی باتوں کا ذکر کیا ہے تو میںان کی وضاحت میں کچھ عرض کروں کہ مکمل طور پر اس نے اپنی محنت سے دولت کمائی ہے اور اپنا مقام بنایا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی میں اس کا اتنا اثرورسوخ ہے کہ اگر الگور صدر ہو جاتا تو آپ یوں سمجھئے کہ پاکستانی نژاد رفعت ہی صدر ہوتا مطلب دست راست۔ اس کی لیموزین کار ان کا ملازم فاروق، خانساماں ہر وقت وی آئی پیز کی خدمت پر ہی مامور ہوتا ہے کیونکہ وی آئی سے کنٹکٹ اور خدمت اس کی کمزوری ہے۔
اس کا محل اوپن ہاﺅس ہے بوتل کے شوقین حضرات کو بوتل اور ہم جیسے کو لسی ہی ملے گی اور جوس بھی ملے گا ۔ان کے ملنے والے پاکستانیوں کی اکثریت نمازی پرہیزگار ہے اور ماشااللہ اگلی نسل نمازی پرہیز گار صوم وصلوة کی پابند ہے اور ایسی پارٹی میں بھی بوقت نماز جائے نماز ایک سائیڈ پر لگ جاتے ہیں اور اکثریت خواتین وحضرات نماز باجماعت ادا کرتے ہیں واشنگٹن اور ورجینیا کے علاقہ میں ڈاکٹرز ماشااللہ اپنے اپنے فیلڈ میں کامیاب ہیں اور امریکنو ںسے بھی آگے ہیں۔ صرف رفعت ہی نہیں قالینوں کے کاروبار میں زبیر اور ان کے ماموں قاسم ماشااللہ اگر رفعت سے زیادہ نہیں تو اس کے ہم پلہ ہیں۔ ایک بڑا پیارا نفیس نوجوان شفقت جسے پیار سے سب ”سنی“ کہتے ہیں اس وقت امریکہ میں سب سے بڑی لیموزین سروس کا مالک ہے۔ گجراتیے اسے لالہ کے نام سے جانتے ہیں۔ چودھری شجاعت کا ڈیرہ وہاں پر ہی ہوتا ہے۔ راولپنڈی کا ملک عرفان کسی سے کم نہیں ان کی بیگم ارم بھی سیاست میں کافی دلچسپی رکھتی ہے۔ پچھلی دہائی میں پاکستانی نژاد لوگوں نے بھی امریکی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے جو کہ پہلے انڈیا ہر جگہ پر گھسا ہوا تھا اب ان پاکستانی لوگوں کی وجہ سے امریکن سیاست میں پاکستانی نژاد لوگوں کی ایک موثر آواز پیدا ہو گئی ہے۔
ہمارے شہر کے محلوں اور کنال دو کنال گھروں میں مکین لوگوں کی نوآباد امریکہ کے رہائشیوں کو JUDGE کرنے کا اتنا علم نہیں ہے وہ اگر واشنگٹن ایریا میں جاتے ہیں تو ان کا گھر بھی انہیں محل نظر آتا ہے مگر ایک گائناکالوجسٹ ڈاکٹر کا گھر جو چنیوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ شہنشاہ ایران کے فرزند رضا کی قربت میں تھا اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ رفعت کا گھر پوش اور قیمتی علاقہ میں برلب دریا ”پوٹیک“ ہے۔ انہوں نے مجھے اپنی بوٹ کی بھی سیر کرائی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر قریشی کا گھر، ملک عرفان کا گھر، سنی کا گھر، قاسم کا گھر، ڈاکٹر انیس میرے داماد کا گھر ٹاپ ویلیو ایریا میں محل ہی ہیں۔ ڈاکٹر قریشی کا گھر تو نوادرات کی وجہ سے عجائب گھر ہے چغتائی کا اریجنل ورک بھی جہاں موجود ہے میاں نواز شریف صاحب نے انیس کے گھر میں کھانا کھایا ہوا ہے اور کہتے تھے کہ جج صاحب ہم کون سے پرائم منسٹر ہاﺅس میں رہتے ہیں یہ گھر تو اس سے بھی زیادہ پرتعیش اور پرسکون ہے۔ امریکن کلچر میں رئیس شہر سے دور رہے گا بعض ایریا میں 5 ایکڑ سے کم گھر نہیں بن سکتا اور اس میں بھی چار ایکڑ آپ نے جنگل و باغ چھوڑنا ہے اور عام امریکن رئیس کا گھر سڑک سے نظر ہی نہیں آئے گا بلکہ درختوں کے جھنڈ کے اندر چھپا ہوا ہو گا ۔میں ریکارڈ کے لئے لکھ رہا ہوں اور اللہ کی مہربانی سے ورلڈ بنک کے موجودہ ریٹائرڈ ملازم، ڈاکٹرز، کامیاب بزنس مین سب ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں اور اپنی مسلم ثقافت کو بھی انہوں نے قائم رکھا ہوا ہے ان کو اپنے حلقے کے کسی عزیز کی آمد کا پتہ چلے تو چار چار مہینے پہلے ہی ان کی دعوتوں کی بکنگ ہو جاتی ہے آپ کی جمعہ کے دن سے شروع ہو کر ہفتہ کا برنچ، ڈنر، اتوار کی دوپہر تک لنچ کی ایڈوانس بکنگ ہوتی ہے اور خواتین ان موقعوں پر پاکستانی ڈریس پہنتی ہیں اور مردوں کی اکثریت پاکستانی ڈریس کو ترجیح دیتی ہے ورنہ پینٹ شرٹ چلتی ہے۔ امریکہ میں فاصلے دوری سے نہیں ٹائم سے ماپے جاتے ہیں آدھ گھنٹہ والا ہمسایہ گنا جاتا ہے۔ 1980 کی بات ہے میری بیٹی زیبا کی سہیلیوں نے میرے کھانے شروع کئے تو دوسرے ہی کھانے پر مجھے پتہ چلا کہ کوئی جہلم کے فاصلے سے آئی ہوئی ہے اور کوئی ملتان اور کوئی پنڈی کے فاصلہ سے آئی ہیں۔ میں نے بیٹی کو اعتراض کیا لوگوں کو اتنی زحمت کیوں دی ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہی تو ہماری فیملیز کے ملنے کا ایک طریقہ ہے کیونکہ مرد تو سارا دن کام پر ہوتے ہیں۔ 25 منٹ کی مسافت پر واقع ڈاکٹر پرویز شاہ بھی انیس کے ہمسائے کہلاتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38