’خون مسلم آن سیل“ دراصل یہ وہ سیل ہے جو کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں جاری و ساری رہتی ہے۔ کبھی یہ سیل بوسنیا میں، تو کبھی یہ چیچنیا میں۔ کبھی فلسطین میں، کبھی کشمیر میں تو کبھی آسام اور گجرات میں، کبھی عراق تو کبھی افغانستان میں۔ یا پھر آجکل اس مخصوص آئٹم کی تازہ ترین سیل برما میں جاری ہے۔ ایک ایسی نایاب سیل جس میں بنیادی شرط آپ کی شناخت ہے۔ اور شرط بھی اتنی سادہ اور آسان، کہ جسے پورا کرنے کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اور وہ شرط یہ ہے کہ برما کے تمام مسلمانوں کی شہریت منسوخ کردی گئی ہے۔ اور ان کے لئے یہ لازم قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ برما میں اپنی مستقل رہائش کا ثبوت پیش کریں، یعنی اپنے آباو¿اجداد کا شجرہ پیش کریں، جو کہ اس بات کا ثبوت ہو کہ یہ برما کے مستقل شہری تھے۔ اور یہ شجرہ نسب 1785 سے لیکر ہنوز تک کا ہونا لازمی ہے۔ اور درمیان میں سے کوئی لڑی غائب بھی نہیں ہونا چاہئے۔ اور جب تک یہ بنیادی شرط پوری نہیں ہوگی اس وقت تک برما کے تمام مسلمانوں کی شہریت منسوخ رہے گی۔ اب 227 سال کا ریکارڈ حاصل کرنا ایک معمولی کام ہے، کیونکہ تمام آباو¿اجداد ایک ہی شہر، ایک ہی محلے ایک ہی گلی اور ایک ہی گھر میں رہائش پذیر رہے ہیں۔ اور پھر اور پھر برما کےسنہ 1785 کے دور کے بزرگوں کو اس بات کا بھی مکمل احساس تھا کہ 2012 میں ان کی اس وقت کی نسل سے شجرہ نسب معلوم کیا جائیگا۔ لہذا تمام ریکارڈ مرتب کی جائے،اور اسے بنک کے لاکر میں رکھا جائے۔ واہ کیا زبردست ثبوت مانگا گیا ہے۔ لیکن میرا سوال ان ثبوت مانگنے والوں سے بھی ہے، کہ کیا ان تمام لوگوں کے پاس بھی ایسا ہی شجرہ نسب موجود ہے، اور اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ 1785 میں برما برما ہی تھا۔ گوانتاناموبے یا صابرہ اور شیتلہ نہ تھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ بے حسی تو عالمی میڈیا اور پاکستان کے میڈیا کی ہے کہ ان کے نزدیک اس قتل عام کی کوئی اہمیت نہیں، اور یہ قتل عام ان کی خبروں میں بریکنگ نیوز تو کیا نیوز کی حیثیت بھی اختیار کر سکا۔ چلیں عالمی نشریاتی اداروں کو چھوڑ دیں ان کا کیا ایجنڈہ ہے؟ کیا پالیسی ہے ؟ وہ کس اصول کی کسوٹی کو اپنائے ہوئے ہیں، یا وہ کن قوائد اور ضوابط کے تحت کام کرتے ہیں۔ میرا سوال تو پاکستان کے اس میڈیا سے ہے، جسے کہ اس بات کی انتہائی تکلیف ہوتی ہے، کہ سیف علی خان کی شادی ٹل گئی۔ کترینہ کیف نے دوبارہ سلیمان خان کی طرف پینگیں بڑھانا شروع کر دی ہیں۔ امیتابھ نے اپنی پوتی کا کیا نام رکھا، یا راجیش کھنہ کی موت کا بالی وڈ پر کیا اثر ہوا۔ یا بھارت کی ریلیز ہونے والی فلموں نے باکس آفس پر کتنا بزنس کیا۔ مگر جب برما میں مسلمانوں کے خون کی سیل پر احتجاج اور حلات کا جائزہ لینے کی غرض سے انصار برنی نے برما کے ویزے کے لئے برمی سفارتخانے میں درخواست دی اور حسب توقع برما کی حکومت نے ویزا دینے سے انکار کردیا۔ برما کے مسلمانوں کے قتل عام کی لوٹ سیل اور پاکستان کے میڈیا اور نام نہاد این جی اوز کی مجرمانہ خاموشی کی۔ میڈیا میں خود ساختہ صف اول کے صحافی انہیں ملک میں مختاراں مائی تو نظر آتی ہے، لیکن انہیں کشمیر سمیت دنیا بھر میں قتل اور عصمت دری کی شکار بقایا خواتین نظر نہیں آتیں، انہیں پاکستان میں اٹھائے جانے والے لوگوں پر تو تشویش ہے، مگر گجرات اور کشمیر میں بھارتی درندوں کے نہتے شہریوں پر مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ ماروی سرمد‘ فرزانہ باری کو پاکستان میں بنیادی حقوق کی پامالی تو کئی گنا زیادہ نظر آتی ہے، مگر برما میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کو یہ برما کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہوئے ہونٹوں پر چپ کی مہر لگائے بیٹھے ہیں۔ جہاں تک حکام پاکستان کا تعلق ہے، تو وہ سیاسی جوڑ توڑ اور مصلحت کی سیاست میں اور کون بنے کا کروڑ پتی کے کھیل میں اتنے مگن ہیں کہ حکومتی سطح پر اس بہیمانہ قتل و غارتگری پر کوئی بیان دینے کا وقت نہیں۔ اس وقت برما میں جو کچھ ہو رہا ہے، کہ جان بچانے کی غرض سے جو مسلمان بنگلہ دیش کی طرف جارہے ہیں تو وہاں وہ بنگلہ دیش کی سرحدی افواج کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، اور نیپال کی طرف جانے والوں کو کشتی میں سوار کرکے دوبارہ کھلے سمندر میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 1971ءمیں انسانی ہمدردی کے دعویدار اور دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوری حکومت نے بقول اس کے لاکھوں بنگالیوں کو انسانی ہمدردی کے تحت افواج پاکستان کے مظالم سے بچانے کی غرض سے پناہ دی تھی، مگر آج یہی جمہوریت ایک بار پھر تاریخ دہراتے ہوئے برما کے مسلمانوں کو اسی جذبے کے تحت پناہ دینے پر تیار نہیں۔ کیوں اس کیوں کا جواب تو اس کیوں کی وجہ بننے والے ہی دے سکتے ہیں۔
آخر میں میں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ میں نے میانمار کو بار بار برما کیوں لکھا تو اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ 1989ءمیں برما کے فوجی حکمرانوں نے برما کا نام تبدیل کرکے میانمار اور برما کے دارالخلافہ کا نام رنگوں سے تبدیل کرکے ینگون رکھ دیا تھا، مگر دنیا میں ایسے ممالک کی اکثریت بھی ہے، جو کہ اس تبدیلی نام کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38