لاڑکانہ سے کوئٹہ پہنچنے کے لیے ہم نے جو سفر اختیار کیا، وہ بہت دشوار گزار، پُرخطر اور کئی گھنٹوں پر محیط تھا-سفید ٹیوٹاکرولا گاڑی کی ڈگی سے باہر کو لٹکتی چار ٹانگیں کس کی تھیں۔وہ لاچار جن کے پاوں جوتوں سے بھی محروم تھے وہ زندہ تھے یا مردہ کچھ آئیڈیا نہیں ہے ان کو نیشنل ہائی وے 65پر اس طرح یوں گاڑی میں لیکر جانے والے کون تھے۔
"ماہ رنگ بلوچ ،تمہیں شاید پتہ ہو سفید کرولا میں بیٹھے وہ تین یا چار لوگ کون تھے کیونکہ وہ وردی یا یونیفارم میں نہیں تھے اور جن کو یوں اغوا یا قتل کرکے وہ لیجارہے تھے شاید تم ان کے متعلق کچھ جانتی ہو؟"
بہرصورت ہم کوئٹہ کینٹ میں واقع گیسٹ روم میں پہنچ چکے تھے جو کسی بہت ہی اچھے آرکیٹکٹ کا ڈیزائن کیا ہوا تھا – ہمیں جو روم الاٹ ہوا، نیا، لگژری اور ضرورت کی تمام چیزوں سے مزین تھا- سلیقے اور قرینے سے ہر چیز اپنی جگہ موجود اور میزبان کی اچھی میزبانی اور ہنرمندی کی عکاس تھی- آرام گاہ اور اُس سے ملحقہ ٹائلٹ میں پرفیوم ڈسپنسر ہر نصف گھنٹے بعد ایک بہت ہی دلکش خوشبو ہر طرف بکھیر رہا تھا- جس سے ماحول معطر اور نہایت ہی خوشگوار محسوس ہو رہا تھا-
روم میں ٹی وی اور کیبل کی موجودگی ہمارے لیے بہت خوش آئند تھی- ٹی وی پر 34 سے زیادہ چینل آ رہے تھے- جن میں انٹرٹینمنٹ اور نیوز کے بھی سبھی چینل شامل تھے- ہم ٹی وی دیکھنے لگے جبکہ بچے چاکلیٹ، بسکٹ اور چپس پر ہاتھ صاف کرنے لگ گئے- اس دوران ہائی وے پر پیچھا کرتی پراسرار سفید ٹیوٹا کرولا کا خوف اور اثر بھی دماغ سے پوری طرح غائب ہو چکا تھا-
اب شام ہوچلی تھی- وقت دھیرے دھیرے آگے کی طرف بڑھ رہا تھا- ساڑھے آٹھ بجے تو بھوک پوری طرح چمک اٹھی- ''میس'' کی بجائے ہم نے ڈنر باہر کرنے کا فیصلہ کیا- سرکاری گن مین سمیت گاڑی میں کینٹ کی حدود سے باہر آ گئے اور کوئٹہ کی سڑکیں ناپنے لگے- بڑے شہر کے سارے لوازمات کوئٹہ میں موجود تھے- مارکیٹیں کھلی ہوئی تھیں- شہر بھی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا- سڑکوں پر ہر طرح کی ٹریفک رواں دواں تھی جبکہ شہر کے مختلف پوانٹس پر واقع ریسٹورنٹ، باربی کیو اور ڈھابے بھوک کی اشتہا کو بڑھا رہے تھے- ایسے میں پروگرام بنا کیوں نہ بلوچی مٹن سجی کھائی جائے- بس پھر کیا تھا، ایک کے بعد دوسرا، تیسرا حتیٰ کہ شہر کے بہت سے ریسٹورنٹ اور باربی کیو پوائنٹس کھنگال ڈالے جہاں چکن سجی تو موجود تھی لیکن مٹن سجی ہمیں کہیں نظر نہ آئی- پھر دریافت کرتے کرتے ایک ایسے ریسٹورنٹ پر آ گئے جو بظاہر سائز میں چھوٹا تھا لیکن مٹن سجی یہاں موجود تھی- بھوک سے سب کا بُرا حال ہو رہا تھا- اس لیے آرڈر کے بعد ہم سب نے بہت رغبت سے کھانا کھایا- یہ دوسرا موقع تھا جب مٹن سجی سے میں بہت لطف اندوز ہوا- اس سے قبل ہمارے ایک دوست ایڈیشنل سیکرٹری پنجاب طارق بسرا نے فورٹ منرو میں مٹن سجی سے ہماری تواضع کی تھی- تب وہ یہاں بطور پولیٹیکل ایجنٹ (پی اے) تعینات تھے- ہم بسرا صاحب ہی کی دعوت پر فورٹ منرو گئے تھے- میرے ساتھ جانے والوں میں ایس ایس پی عبداللہ احمد، جعفر بن یار اور ہمارے ایک مشترکہ دوست میاں تنویر سرور بھی شامل تھے- ہمیں جہاں ٹھہرایا گیا وہ ڈیڑھ سو برس پرانا پی اے ہاؤس تھا- یہاں پہلی بار مٹن سجی کھائی- جو پی اے فورٹ منرو کے بلوچ کک نے تیار کی تھی- وہ ایک سالم بکرا تھا جس کے چار حصے کئے گئے- ہر مہمان کو ایک تیز دھار چھری بھی دی گئی، کہا گیا بکرے کے جس حصے کا گوشت پسند ہو، چھری سے کاٹ کر پلیٹ میں ڈال لیں- بلاشبہ ایک بہترین ایڈونچر اور لذتوں بھرا تجربہ تھا- جس کا سارا کریڈٹ طارق بسرا کو جاتا ہے- فورٹ منرو کی اس مٹن سجی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی میں نے کوئٹہ میں قیام کے دوران مٹن سجی کھانے کا سوچا تھا- لیکن یہ تجربہ اچھا نہ تھا -فیملی کو بھی میر ی یہ ''کاوش'' زیادہ پسند نہ آئی- وائٹ کرولا والی فلم جب ذہن میں چلنا شروع ہوتی تو جسم میں سنسنی سی دوڑ جاتی-
کھانا کھانے کے بعد کوئٹہ کو ''ایکسپلور"کرنے کا ارادہ تھا- لیکن ریسٹورنٹ سے باہر نکلے تو دکانیں بند ہو رہی تھیں- جس کے باعث سڑکوں پر رش بھی کم ہو گیا تھا- ایسے میں واپس گیسٹ روم جانے میں ہی عافیت سمجھی-رسمی چیکنگ کے بعد ایک بار پھر کینٹ ایریا میں انٹری ہوئی- گیسٹ ہاؤس پہنچتے ہی سکھ کا سانس لیا- روم میں آئے تو بچے ٹی وی دیکھنے لگے- جبکہ ہم میاں بیوی نے طے کیا کہ کل مشہور شہر زیارت کے وزٹ پر نکلیں گے- جس میں قائداعظم ریذیڈنسی بھی دیکھنا شامل تھا - پروگرام طے کر کے ہم محو استراحت ہو گئے-
اگلی صبح پارک آرمی سے عبداللہ احمد کے دوست کی کال آ گئی- جو فوج میں میجر تھے- انہوں نے شیڈول کا پوچھا تو میں نے بتایا زیارت کے وزٹ کا پروگرام ہے- یہ سن کر میجر صاحب نے انتہائی جہاندیدہ اور تجربہ کار ایک حوالدار کو ہمارے ساتھ کر دیا- قریباً ساڑھے نو بجے ڈبل کیبن میں گیسٹ روم سے نکل گئے- فوجی حوالدار، ہمارے گن مین کے ساتھ پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گیا- کچھ ہی دیر میں ہم کینٹ ایریا اپنے عقب میں چھوڑ آئے- کوئٹہ سے زیارت کی طرف جائیں تو راستے میں کچلاک کا پُررونق بازار آتا ہے- جہاں زندگی کی ضرورت کی ہر چیز وافر مقدار میں مل جاتی ہے- بازار میں چھوٹی موٹی چیزوں کی خریداری کے لیے رکے تو یہاں موجود لوگ بڑی عجیب نظروں سے ہمیں دیکھنے لگے- جس سے اضطراب بڑھنے لگا- ہائی وے پر تعاقب کرتی وائٹ ٹیوٹا کرولا ایک بار پھر سے دماغ میں گھومنے لگی- جس مقام پر رکے فوجی حوالدار نے بتایا کہ یہیں سے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر مرحوم کے مغوی بیٹے شہباز تاثیر کو سیکورٹی فورسز نے ''ریکور'' کیا تھا- فوجی حوالدار ہمیں جب یہ بتا رہا تھا، کیا دیکھتے ہیں عجیب و غریب حلیے کا ایک شخص جو بلوچی یا شائد پختون تھا گاڑی کے شیشے کے ساتھ منہ چپکائے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے- شیشے بلیک ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں نہیں دیکھ پا رہا تھا لیکن اندر بیٹھے اُس کی حرکات و سکنات کو ہم بخوبی دیکھ رہے تھے- اسی دوران فوجی حوالدار نے اُسے ڈانٹا اور پیچھے ہٹنے کو کہا یوں وہ ایک طرف بھاگ گیا-
اب ہم اگلی منزل پر جانے کے لیے یہاں سے روانہ ہو گئے- میدانی اور کچھ دشوار گزار پہاڑی راستوں کو اپنے پیچھے چھوڑ تے- کچلاک، بوستان اور احمدون سے گزرتے لگ بھگ پونے تین گھنٹوں میں 130کلومیٹر کا سفر طے کر آئے اور بالآخر زیارت پہنچ گئے- ''زیارت'' بلوچستان کا ایک انتہائی خوبصورت اور دلکش مقام ہے- سبی ڈویژن کا ضلعی ہیڈکوارٹر بھی ہے- جبکہ سبی ڈویژن کے دیگر اضلاع میں ڈیرہ بگٹی، کوہلو، سبی اور ہرنائی شامل ہیں- ''زیارت'' میں قائداعظم محمد علی جناح کی وہ رہائش گاہ بھی ہے جہاں انہوں نے بیماری کے دنوں میں قیام کیا اور زندگی کے آخری دن گزارے- رہائش گاہ کی خاص بات اس میں لکڑی کا زیادہ استعمال ہے- ریذیڈنسی کو ریاست نے سیاحتی مقام کا درجہ دے رکھا ہے- جہاں قائداعظم کے زیراستعمال مختلف اشیاء سیاحوں کی دلچسپی کے لیے رکھی گئی ہیں- ان میں قائداعظم کے زیر استعمال تاریخی میز، ان کا بیڈ،سنگھار ٹیبل،لکڑی کے فرنیچر پر ہی مشتمل کانفرنس روم اور دیگر اشیاء شامل ہیں-زیارت میں ہم نے ''جونیپر'' کے قدیم درخت بھی دیکھے- جس کے جنگلات اڑھائی لاکھ ایکڑ سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں- زیارت میں جونیپر کے یہ جنگلات دنیا کے دوسرے بڑے جونیپر کے جنگلات میں شمار ہوتے ہیں- کہا جاتا ہے ان میں سے بعض درختوں کی عمر کئی ہزار سال ہے- ''جونیپر'' کو دیکھنے کی ''رسم'' پوری کرنے کے بعد ایک مقامی ریسٹورنٹ میں آ گئے- جہاں سیر ہو کر کھانا کھایااور پھر واپس کوئٹہ کے لیے روانہ ہو گئے- زیارت سے کوئٹہ جاتے ہوئے جگہ جگہ سیبوں کے درخت بھی نظر آئے- جنہیں دیکھ کر ہم رک گئے- بچوں نے سیب کھانے کی خواہش ظاہر کی تو فوجی محافظ نے متنبہ کیا سیب ضرور توڑیں لیکن اچھی طرح دھو کر کھائیں- کیونکہ مالکان نے سیبوں کو کیڑوں اور راہگیریوں سے بچانے کے لیے ان پر بہت ہی زہریلا سپرے کیا ہوتا ہے- فیملی سمیت ہم نے اس مقام پر کافی تصویریں بھی بنائیں-
کوئٹہ ڈسٹرکٹ کی حدود شروع ہوئی تو سڑک کے کنارے جگہ جگہ پک اپ، منی ٹرک اور بسیں نظر آئیں- جن میں قلفی فروش قلفی بیچ رہے تھے- ہم نے بھی کچھ قلفیاں خریدیں- جو ذائقے میں واقعی بہت لذیذ تھیں- کوئٹہ چھاؤنی کی حدود میں داخل ہوئے تو شام ہو رہی تھی- ڈنر گیسٹ ہاؤس میں ہی کیا- کیونکہ ایک روز پہلے مٹن سجی کا تجربہ کوئی خاص نہیں رہا تھا-
اگلے روز طے پایا کوئٹہ کی مشہور اورینہ جھیل کی سیر کی جائے- صبح اٹھتے ہی آملیٹ پراٹھا، دہی، چنے اور آلو کی بھجیا سے بھرپور ناشتہ کرنے کے بعد ہم اورینہ جھیل کی جانب روانہ ہو گئے- بچے ہم سے زیادہ پرجوش تھے کیونکہ جھیل میں کشتی رانی کا بھی پروگرام تھا- بچے اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے- آدھ گھنٹے میں کوئٹہ شہر سے ہنہ جھیل پہنچ گئے- گاڑی پارک کرتے ہی ہمار ا جوش و خروش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا کیونکہ ہنہ جھیل میں پانی ہی موجود نہ تھا ۔جھیل پوری طرح خشک ہو چکی تھی ۔سیاحوں کی تعداد بھی ناہونے کے برابر تھی۔کئی ایک لوگ جھیل کے اندر گھوم پھر رہے تھے جھیل کے بیچوں بیچ ایک ٹیلے پرچھوٹی سی عمارت بنی ہوئی تھی لیکن کچھ بھی پرکشش نہیں لگ رہا تھا ۔ویرانی سی چھائی تھی۔پوچھنے پر بتایا گیا کہ بارشیں نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے جھیل مکمل طورپر خشک ہوچکی ہے۔علم میں آیا کہ سات مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی کوئٹہ شہر کی یہ جانی مانی جھیل پانی کے لیے صرف بارش کی محتاج ہے۔برف پوش پہاڑ، گلیشیر یا کوئی اور ذریعہ اس جھیل کو سیراب کرنے کے لیے نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے جھیل رفتہ رفتہ مکمل طورپر سوکھ گئی ہے۔جھیل کنارے کولڈ کارنر اور برگر ،شوارمے والے خالی بیٹھے گاہکوں کا انتظار کررہے تھے ہم دلچسپی کھو چکے تھے۔یہی وجہ تھی کہ بمشکل آدھ پون گھنٹہ گزارنے کے بعد ہم واپس کوئٹہ شہر کو نکل پڑے۔ایسے میں کوئٹہ شہر گھومنے اور کچھ شاپنگ کا اردا بنا۔نیٹو بازار اور لیاقت بازار کا وزٹ کیا کچھ شاپنگ کی دوپہر کا کھانا کھایا اورواپس کینٹ کی راہ لی۔قریب آٹھ بجے رات ڈنر کیا اورپروگرام بنا کہ اگلی صبح لیاقت بازار ، پرنس روڈ پر واقع کوئٹہ کے مشہور ترین نعمت کدہ سے راویتی ناشتہ کرنے کے بعد مستونگ،قلات اور خضدار کے راستے کراچی کی طرف عازم سفر ہوا جائے۔
ڈنر کے بعد مجھے سیل فون پر کال آئی ۔آپریٹر بول رہا تھا جس نے بتایا کہ ڈی پی او مستونگ بات کرنا چاہتے ہیں۔آج دن میں ہی چھوٹے بھائی ایس پی عبداللہ احمد نے بتایا تھا کہ سکیورٹی کی غرض سے مستونگ پولیس آپ کو ایسکارٹ کریگی۔عبداللہ احمد کے ریفرنس سے رسمی گفتگو کے بعد ڈی پی او مستونگ نے بتایا کہ ان کی ایک گاڑی ہمیں کوئٹہ کینٹ سے مستونگ ضلع کی حد تک ایسکارٹ کریگی ۔پھر قلات اور اس کے بعد خضدار پولیس اسی طرح بلوچستان میں ہماراحفاظتی سفر ضلع حب تک جاری رہیگا۔
لیکن اس کے بعد ڈی پی او مستونگ نے جو بات کی اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور ایکبار پھر سفید کرولا پھرذہن میں گھومنے لگی۔
ڈی پی او مستونگ نے کہا عبداللہ احمد کے ریفرنس سے آپ میرے بھی بڑے بھائی ہیں۔مجھے بتائیں آپ کے پاس گاڑی کون سی ہے میں نے گاڑی کے متعلق بتایا کہ ڈبل کیبن آٹومیٹک گاڑی ہے اس پر ڈی پی او مستونگ نے کہا اگر میری مانیں تو کسی کو نہ بتائیں نہ ہی آرمی یا پولیس کی ایسکارٹ لیں بلکہ خاموشی سے نکل جائیں لفظ خاموشی پر انہوں نے زور دیا ان کا کہناتھا کہ اگر میرا سگا بھائی ہوتا تو میں اس بھی میں انہیں یہی مشورہ دیتا میرے وجہ پوچھنے پران کا کہنا تھا کہ جب آپ کا پروٹوکول لگے گا تو وائرلیس چلے گی اور وائرلیس بہت سے ادارے اور ایجنسیاں سنتی ہیں ان میں مخبر ،ٹاوٹ اوربرے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی اطلاع پر آپ کسی دہشت گرد تنظیم کے ہاتھوں ہٹ یا اغوا ہوسکتے ہیں۔ضلعی پولیس کے ایک سربراہ کے منہ سے ایسی بات سن کر میں حقیقا" پریشان ہوگیا ایک دو رسمی جملوں کے بعد کال ختم ہوئی تو میں نے مسز کوساری گفتگو سے آگاہ کیاجس پر وہ بھی پریشان ہوگئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔
؎
ماہ رنگ ،بات اتنی بھی سادہ نہیں
Apr 07, 2025