جب 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو اْن کا نعرہ تھا First" "America ۔ اس پالیسی کا مقصد امریکی معیشت کو بیرونی اثرات سے بچانا اور مقامی صنعتوں کو فروغ دینا تھا۔ اسی تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ نے تجارتی پالیسیاں از سر نو مرتب کیں جن میں سب سے متنازع اور مؤثر فیصلہ ٹیرف (محصولات) میں اضافہ تھا۔ ان اقدامات نے نہ صرف امریکہ کی داخلی معیشت بلکہ عالمی تجارتی نظام کو بھی شدید متاثر کیا۔ ٹیرف کیا ہے ، ٹیرف وہ محصولات ہوتے ہیں جو کسی درآمدی یا برآمدی شے پر حکومت کی جانب سے عائد کیے جاتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے چینی، یورپی، روسی اور دیگر ممالک سے درآمد کی جانے والی مختلف اشیاء پر بھاری ٹیرف عائد کیے۔ اس پالیسی کے تحت خاص طور پر اسٹیل، ایلومینیم، گاڑیوں، اور الیکٹرانکس جیسی اشیاء پر محصولات میں اضافہ ہوا۔ ان اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ امریکی صنعت کو بیرونی مقابلے سے بچایا جائے اور اندرونِ ملک پیداوار کو فروغ دیا جائے۔ ٹرمپ کے ٹیرف اقدامات کے فوری اثرات میں سے ایک یہ تھا کہ کچھ امریکی کمپنیاں، خصوصاً اسٹیل اور ایلومینیم کی صنعتیں، وقتی طور پر فائدے میں رہیں۔ بیرونی مسابقت کم ہونے سے ان کی مصنوعات کی طلب بڑھی۔ دوسری طرف، ان مصنوعات کی قیمتیں عام صارف کے لیے مہنگی ہو گئیں۔ ٹیرف کا بوجھ بالآخر صارف پر پڑا، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور مارکیٹ میں بے یقینی پیدا ہوئی۔ جب کہ چین، یورپ، کینیڈا، روس اور دیگر ممالک نے امریکہ کی جانب سے عائد کیے گئے محصولات کا فوری جواب دیا۔ ان ممالک نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات لگا دیے، جس سے عالمی سطح پر تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کا سب سے بڑا ہدف چین تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ چین امریکی ٹیکنالوجی چوری کر رہا ہے اور امریکی مصنوعات پر غیر منصفانہ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ 2018 سے چین اور امریکہ کے درمیان باقاعدہ تجارتی جنگ کا آغاز ہوا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی درآمدات پر اربوں ڈالر کے محصولات عائد کیے۔ چین نے امریکی سویا بین، گاڑیوں اور دیگر زرعی اجناس پر ٹیرف لگا کر امریکی کسانوں کو براہِ راست نشانہ بنایا۔ چین کی برآمدی معیشت کو وقتی طور پر دھچکا لگا، مگر اس نے فوری طور پر متبادل منڈیاں تلاش کیں، جیسے آسیان ممالک، افریقہ اور یورپ۔چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی نے عالمی سپلائی چینز کو بری طرح متاثر کیا۔ کمپنیاں مجبور ہوئیں کہ وہ اپنی پیداوار کے مراکز کو دیگر ممالک میں منتقل کریں، جس سے سرمایہ کاری میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ یورپ نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ خاص طور پر جرمنی اور فرانس جیسے ممالک نے امریکی اقدامات کو "تحفظ پسندی" قرار دیا۔ یورپی یونین نے بھی امریکی موٹر سائیکلوں، بوربن وہسکی، اور زراعتی مصنوعات پر جوابی ٹیرف عائد کیے، جو زیادہ تر ریپبلکن جماعت کے مضبوط سیاسی حلقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یورپ نے ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کرنا شروع کیے تاکہ امریکی منڈی پر انحصار کم ہو۔ جب کہ روس نے امریکہ کی ٹیرف پالیسی کو عالمی تجارتی نظام پر حملہ قرار دیا۔روس نے چین، ایران، ترکی اور دیگر غیر مغربی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے پلیٹ فارم روس کی ترجیح بن گئے۔ روس نے اپنی تجارت کو امریکی ڈالر کے بجائے دیگر کرنسیوں میں منتقل کرنے کی کوشش کی، جو طویل المدتی پالیسی کا حصہ بن گئی۔ امریکہ کے قریبی تجارتی شراکت داروں کو بھی شدید اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔ NAFTA معاہدہ ختم کر کے USMCA معاہدہ لایا گیا، جس میں کئی نئی شرائط شامل کی گئیں۔ بھارت بھی امریکی ٹیرف سے متاثر ہوا۔ اس نے امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات عائد کیے اور اندرونی معیشت پر توجہ مرکوز کی۔ چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک، جو امریکی یا چینی مارکیٹ پر انحصار کرتے تھے، اْن کے لیے تجارتی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا۔ انہیں اپنی برآمدات کے لیے نئے راستے تلاش کرنے پڑے۔ٹرمپ کی پالیسیاں عالمی ادارہ تجارت (WTO) جیسے پلیٹ فارمز کو کمزور کرنے کا باعث بنیں۔ ممالک نے دو طرفہ معاہدوں کو ترجیح دینا شروع کر دی، جس سے کثیر القومی نظام کو دھچکا لگا۔ امریکہ کے بعد دیگر ممالک نے بھی "اپنی معیشت پہلے" کا نعرہ اپنایا۔ اس سے آزاد تجارت کا تصور کمزور پڑا اور تجارتی جنگوں کا ماحول پیدا ہوا۔ اگرچہ کچھ مقامی صنعتوں کو وقتی سہارا ملا، لیکن مجموعی طور پر مہنگائی، صارفین کی پریشانی اور عالمی شراکت داریوں میں کمی نے امریکہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ اتحادی ممالک نے امریکی پالیسیوں کو غیر متوقع اور نقصان دہ سمجھا، جس سے واشنگٹن کی عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہوئی۔ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے ایک طرف اندرونی صنعتوں کو وقتی سہارا دیا، مگر اس کے منفی اثرات نے عالمی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ چین، یورپ، روس اور دیگر ممالک نے ردعمل میں اپنی اقتصادی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کی، اور ایک نیا تجارتی ورلڈ آرڈر اْبھرنے لگا۔ اگرچہ ٹرمپ کے بعد آنے والی انتظامیہ نے کچھ پالیسیوں کو نرم کیا، لیکن ان کے اثرات طویل مدتی ثابت ہوئے۔ آج بھی دنیا ان پالیسیوں کے اثرات سے گزر رہی ہے، اور عالمی معیشت ایک نئے توازن کی تلاش میں ہے۔
ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی,
Apr 07, 2025