نئی نہریں اور وفاقی یکجہتی کی آزمائش

Apr 07, 2025

نازیہ مصطفےٰ

دریائے سندھ کی موجوں میں صرف پانی نہیں بہتا، بلکہ پاکستانی وفاق کی بقا کا راز بھی چھپا ہے، کیونکہ سندھ کے کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں، بلوچستان کے صحراؤں میں اْگنے والی کھجوریں اور پنجاب کی سرسبز وادیاں، یہ سب اسی دریا کے دم سے زندہ ہیں۔ لیکن جب سے چولستان کے صحرا کو سرسبز بنانے کے لیے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ سامنے آیا ہے، تب سے سندھ کے کسانوں کے چہروں پر خوف کے سائے نظر آنے لگے ہیں۔ سندھ کے دامن میں بیٹھے کسان پریشانی میں مبتلا ہونے لگے ہیں کہ کہیں اْن کی زمینیں بنجر نہ ہوجائیں۔
بتایا جارہا ہے کہ چولستان میں جدید کاشتکاری کے منصوبے کا مقصد معیشت کو بہتر بنانا ہے، لیکن سوال یہ کہ کیا یہ ہدف سندھ کے کھیتوں کو بنجر بنانے کی قیمت پر حاصل کرنا دانشمندی ہوگا؟ صحرا کو سرسبز بنانے کا خواب تو اچھا ہے، مگر کیا اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے ہمیں سندھ کے کسانوں کو قربان کرنا پڑے گا؟
اس میں حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ کوئی تکنیکی مسئلہ ہے یا سیاسی مسئلہ کھڑا کیا جارہا ہے؟ یہ کوئی نیا سوال نہیں، یہ تو اْس پرانی کہانی کا نیا باب ہے جب ہم نے کالا باغ ڈیم کو "صوبائی مفادات" کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ کسانوں کی آنکھوں میں یہ خوف محض پانی کی کمی کا خوف نہیں، بلکہ ایک تاریخی عدم اعتماد کا خوف ہے جو کالا باغ ڈیم کے تنازعے سے لے کر اب تک پاکستانی وفاق کے دامن سے چمٹا ہوا ہے۔ تو کیا ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری باہمی بے اعتمادی ہے؟
دریاؤں کے پانی کا معاملہ دراصل اْس تلخ حقیقت کی غمازی بھی کرتا ہے کہ ہماری وفاقی اکائیاں آپس میں کس بری طرح سے الجھی ہوئی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے دریائے سندھ کی ڈولفن مچھلیاں جال میں پھنسی ہوں۔
یقینا وفاق کی طاقت کا یہ مطلب نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے تحفظات کو پاؤں تلے روند دیا جائے۔ سندھ کے کسانوں کا خدشہ محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں۔ یہ تو اْس المیے کا آغاز ہے جو پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ دریائے سندھ کو "قومی دریا" کہہ کر اْس کے پانی پر وفاق کی اجارہ داری قائم کرنا، دراصل آئین کے آرٹیکل 155 کو چیلنج کرنا ہے۔ کیا وفاق کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ صوبوں کو یقین دلائے کہ اْن کے حصے کا پانی کوئی نہیں چھینے گا؟ مگر جب تک مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) جیسے ادارے فعال نہیں ہوں گے، تب تک سندھ کے کسانوں کا اضطراب دور نہیں ہوگا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ "وفاق" کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلے؟
وزیراعلیٰ سندھ کا یہ اعتراض کہ "صدر زرداری سے نہروں کی منظوری غلط طریقے سے لی گئی" ، یہ ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ دراصل حقائق سے آنکھیں چرانے والی بات ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی دوہری کشتی میں سوار ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت بخوبی جانتی ہے کہ نئی نہریں ضروری ہیں، لیکن دوسری جانب ان پر دیہی سندھ کے ووٹرز کا دباؤ بھی ہے۔ یہ دباؤ یقینا کم کیا جاسکتا تھا، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک کوئی ایسا میکانزم نہیں بنایا جو اس طرح کے مسائل کا جواب دے سکے۔
سندھ کی سیاسی قیادت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کالا باغ ڈیم کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے پہلے ہی پاکستان کو مجموعی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ تو کیا اب نہروں کا معاملہ ہمارے لیے دوسرا کالا باغ ڈیم ثابت ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ضمیر کو جھنجوڑ سکتا ہے۔
یقینا تنازعات کا حل بات چیت میں ہے، نہ کہ اکثریت کے زور پر اپنی بات منوانے میں۔ تو کیا یہ ہماری جمہوریت کی پختگی کا امتحان نہیں کہ ہم اختلافات کو طاقت سے نہیں، بلکہ مکالمے سے حل کریں؟
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں پانی کے تنازعات کبھی محض تکنیکی معاملات نہیں رہے۔ کالا باغ ڈیم کا معاملہ ہو یا اب چولستان کینال منصوبہ، یقینا یہ صوبائی خودمختاری کے سوال کو جنم دیتے ہیں لیکن مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے جو امید ظاہر کی ہے، وہ اطمینان بخش ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادارہ محض ایک رسمی ڈھانچہ بن کر نہیں رہ گیا؟ کیا اس کے فیصلوں پر واقعی عملدرآمد ہوتا ہے؟ اگر مشترکہ مفادات کونسل کو فعال کرلیا جائے اور اس طرح کے بڑے منصوبوں پر صوبوں کی رضامندی حاصل کی جائے، تو کوئی مسئلہ حل نہ ہونے والا نہیں۔
کیا اس میں کوئی دو رائے ہوسکتی ہے کہ وفاق کو صوبوں کے ساتھ شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس سارے بحران کا حل صرف اور صرف آئین کی بالادستی میں ہے۔ پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ اس کے تمام صوبوں کو ان کے جائز حقوق ملے۔ دریائے سندھ کا پانی اگر چولستان کو سرسبز بنا سکتا ہے تو یہ خوش آئند ہے۔ جدید آبیاری کے طریقے اپنا کر، پانی کے ضیاع کو روک کر، اور منصفانہ تقسیم کار کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک وفاق ہے، اور وفاق کی طاقت اس کے صوبوں کے اتحاد میں ہے۔ نہروں کا معاملہ وفاقی یکجہتی کی آزمائش ہے، ہم اپنی ناک سے آگے دیکھیں گے تو یہ مسئلہ بھی حال ہوجائے گا، کیونکہ دریائے سندھ کی مانند ہمیں بہنا ہے تو اکٹھے بہنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

مزیدخبریں