دل کو روؤں کہ …
میرے ملک خداداد پاکستان کی اس وقت جو مجموعی صورتحال ہے اس پر ماتم زنی کرنے کیلئے شاید غالب کے اس شعر…؎
‘‘حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں’’
سے بہتر الفاظ شاید ہی دنیا کی کسی لْغت یا ڈکشنری میں موجود ہوں۔ آج جہاں دنیا کے طاقتور ترین ملک اور معیشتیں اس فکر میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں کہ اوّل اس کورونا کی ہلاکت خیزی کی وجہ سے کس طرح انسانی جانوں کو بچایا جائے اور دوئم اس وباء کی وجہ سے جسطرح معیشتیں ڈوب رہی ہیں اْن حالات میں کس طرح عام اور غریب آدمی کی مدد کی جائے کہ اسکی روزمرہ زندگی کی ضروریات پوری ہوتی رہیں‘ وہاں جب اپنے وطن پر کوئی صاحب فکر ایک نظر ڈالتا ہے تو وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہاں کے زمینی حقائق چیخ چیخ کر اس بات کی دْھائی دے رہے ہیں کہ اس سلسلے میں کوئی عملی کوشش تو دور کی بات یہاں پر ہر طرف ایسی سوچوں پر پہرے بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جب کوئی صاحب فکر امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی مثال دیتا ہے تو ہمارے ہاں سے ایک ہی جواب آتا ہے کہ وہاں کے عوام ٹیکس دیتے رہے ہیں اس لیئے اب وہاں کی حکومتیں اْنہی کا پیسہ اْنہی کو واپس کر رہی ہیں۔ راقم کوئی ماہر معاشیات نہیں لیکن اعداد و شمار کی بنیاد پر دعوی کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ جس انٹلیکچول عیاری کے ساتھ ہماری حکومت بالواسطہ indirect ٹیکسز کے ذریعے ایک عام اور مزدور آدمی سے بھی ٹیکس وصول کر رہی ہے ان کو یکجا کر کے دیکھیں تو اسکی شرح ان ممالک کے ٹیکسز سے زیادہ بنتی ہے جو وہ براہ راست ٹیکسز سے حاصل کیئے جا رہے ہیں۔ ایک طالبعلم کی حیثیت سے اتنا جانتا ہوں کہ ڈائریکٹ ٹیکسز میں وہ طبقہ ٹیکسز کے حلقہ میں آتا ہے جو اسے دینے کی سکت رکھتا ہے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کا شکار اس طبقے کی وہ اکثریت ہوتی ہے جو کسی صورت نہ اسکے مدار میں اتی ہے اور نہ اس میں اسے ادا کرنے کی سکت ہوتی ہے۔ بس اسے ہماری بدنصیبی سے تعبیر کریں یا اپنی کم علمی، غفلت یا نااہلی کہ عوام کا اکثریتی طبقہ جانتے بوجھتے کہ نام نہاد اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس استحصال میں ملوث ہے ہی خود۔ عوام اس طرف نہ کوئی توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اسکے متعلق کوئی اواز اْٹھاتے ہیں کہ ہم ناحق کیوں اس ظالمانہ روش کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنے کالم کی ابتداء میر تقی میر کے اس شعر سے کرنی پڑی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی اس ناانصافی پر لیڈر شپ کو موردِ الزام ٹھہراؤں یا خود عوام کو اسکا ذمہ دار قرار دوں۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی جس وقت بھی اسطرح کے بحرانوں نے جنم لیا ہے وہاں پر تمام مکاتب فکر اس جستجو میں جْت جاتے ہیں کہ فکری اختلافات اپنی جگہ انکے نزدیک سب سے مقدم چیز یہ ہوتی ہے کہ اس بحران سے کس طرح نمٹا جائے اور نکلا جائے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ آج اس وبائی بحران کو شروع ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے اس سارے عرصے میں مجال کوئی ایک ایسا دن کوئی ایسی مثال یا کوئی ایسا بیان سامنے آیا ہو جس سے یہ پتہ چلے کہ ہماری اشرافیہ اس سلسلے میں رتی بھر بھی سنجیدہ ہے۔ اسکے برعکس دونوں طرف حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو دیکھ لیں ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری اور شاطرانہ چالوں کے علاوہ کوئی سنجیدہ عملی کوشش سامنے آئی ہو جس سے پتہ چلا کہ ہماری قیادتوں کے پیش نظر قومی مسائل کی کوئی اہمیت ہے۔ کہتے ہیں بحرانوں میں قیادتوں کی مستقل مزاجی بڑا اہم رول ادا کرتی ہے لیکن ہماری بدنصیبی کے سنگ میلوں میں یہ بھی ایک سنہرا اضافہ ہے کہ مستقل پالیسی تو دور کی بات ہمارے ہاں عسکری شعبہ کو چھوڑ کر کوئی ایسا ادارہ یا محکمہ نہیں جہاں متعین فرد کو یہ ضمانت ہو کہ آنے والا اگلا دن اسے اسی ادارے یا محکمے میں دیکھنے کو نصیب ہو گا۔ جس ملک ، جس ادارے ، جس محکمے میں ایسے episode دیکھنے کو ملیں جسطرح کے مناظر ہر روز ہمیں اپنے ملک میں دیکھنے کو مل رہے ہیں تو پھر وہاں ماتم ہی ہو سکتا ہے۔ قارئین جب اتنی باتیں کر رہا ہوں تو ایک دفعہ پھر میرا ہمزاد ٹپک پڑا ہے اور مجھ سے سوال کر رہا ہے کہ ’’میں تے میرا ماہی اک پاسے باقی ساری خدائی اک پاسے‘‘ تو پھر تمہارا فلسفہ کا کیا جواب دیتا ہے۔ میرے پاس تو کوئی جواب نہیں اگر آپ کے پاس ہے تو آپ میرے ہمزاد کو مطمئن کر سکتے ہیں۔