شیخوپورہ کا شارق نظامی
شارق نظامی میں شعری صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے ودیعت کر دی تھیں۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ 1992ء میں شائع ہوا، جب وہ میٹرک کا طالب علم تھا۔ شارق نظامی کے بجائے اپنا نام ’’شارق مان‘‘ بھی لکھتا ہے۔ ’’مان‘‘ جٹ ذات کی گوت ہے۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی نسبت سے اس نے ’’شارق نظامی‘‘ لکھنا شروع کیا اور اسی نام سے معروف ہوا۔ اس کا آبائی شہر کروڑ لعل عیسن ہے، اس لیے یہ اپنے شعری مجموعوں پر آبائی شہر کا پتا لکھتا ہے۔ آبائی شہر کی وجہ سے اس کی شاعری میں خواجہ غلام فرید کی شاعری کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر سید تنویر بخاری شاعری میں شارق کے استاد ہیں۔ شاعری کے علاوہ تنویر بخاری کو وہ مرشد کا درجہ بھی دیتا ہے۔ ڈاکٹر تنویر بخاری اپنے آبائی گاؤں کڑیال کلاں (شیخوپورہ) ہی میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں کہ یہیں ان کے والد سید عبداللہ شاہ کا مزار ہے، جس کے وہ گدی نشین ہیں۔ تنویر بخاری کا سلسلہ نقشبندی ہے۔ شارق کا کہنا ہے کہ تنویر بخاری سے شاعری کی اصلاح کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس بھی ہوتا ہے۔ یعنی ان سے مجھے تصوف کی تعلیم ملتی ہے۔ شارق کی شاعر ی میں استاد کا عکس بھی نمایاں ہے۔
شارق کا تازہ شعری مجموعہ ’’اٹھواں رنگ‘‘ ہے ۔ اس میں شارق نے نظم میں کئی نئے تجربے کیے ہیں۔ اس نے سات رنگوں کے ساتھ آٹھواں رنگ تخلیق کیا ہے اور وہ ’’امید‘‘ کا رنگ ہے۔ جو سب سے خوبصورت اور سب سے اہم ہوتا ہے۔ ’’آٹھواں رنگ‘‘ میں اس نے ایک انوکھا تجربہ بھی کیا ہے، جسے میں پڑھ کر حیران پریشان ہو گیا کہ شارق اردو اور پنجابی کے علاوہ فارسی کا ماہر بھی ہے۔ مثنوی اسرار خودی میں علامہ اقبال نے حکایت الماس و زغال بیان کی ہے جو فارسی میں ہے۔ یعنی ہیرا اور کوئلہ۔
اگر ان دونوں کا کیمیاوی تجزیہ (Chemical Analysis) کیا جائے تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کا اصل ایک ہی ہے یعنی کاربن۔ وہ نا پختگی کی حالت میں کوئلہ ہوتا ہے اور جب پختہ ہو جاتا ہے تو ہیرا بن جاتا ہے۔ اس حقیقت کو اس حکایت میں بیان کیا گیا ہے۔ شارق نے ’’آٹھواں رنگ‘‘ میں علامہ اقبال کی حکایت الماس و زغال کو پنجابی شعروں میں بیان کیا ہے، جو خاصا مشکل کام ہے جسے شارق نے بآسانی کر دکھایا ۔وہ صرف فارسی اشعار کا مترجم ہی نہیں بلکہ فارسی میں شعر کہنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس کے شعری مجموعے ’’کیا جاں سے گزر جائیں‘‘ میں فارسی کلام بھی شامل ہے۔
شارق نے مجھے بتایا کہ وہ اس حکایت کے علاوہ علامہ اقبال کے دیگر فارسی کلام کا بھی پنجابی میں ترجمہ کر رہا ہے جو عنقریب شائع ہو گا۔ اس کے نزدیک فارسی کے بغیر کوئی اچھا شاعر نہیں بن سکتا۔ ہمارا پس منظر فارسی ہی ہے۔ متعدد کلاسیکی شاعروں نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی شعر کہے۔
شارق، فارسی کے علاوہ عربی زبان میں بھی دسترس رکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انگریزی کلچر نے نوجوان نسل کو فارسی اور عربی سے دور کر دیا ہے۔ شارق نظامی نے اپنے شعری مجموعوں کی قیمت ایک ہزار روپے Fix (منجمد) کی ہوئی ہے۔ مثلاََ ’’دیوان شارق‘‘ 752 صفحات، ’’آٹھواں رنگ‘‘ 222صفحات اور ’’جاں سے گزر جائیں‘‘ 96 صفحات پر مشتمل ہے ۔ مگر ان تینوں مجموعوں کی قیمت فی مجموعہ ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ اس سلسلے میں شارق کا موقف ہے کہ قیمت بھلے آپ سو روپے بھی رکھ لیں۔ پنجابی زبان میں لکھی گئی کتاب بہت کم فروخت ہوتی ہے۔ کتاب چھپا کر میں احباب کو گفٹ کر دیتا ہوں۔ میرا مقصد کمرشل نہیں۔ نہ شاعری میرا رزق روٹی کا ذریعہ ہے۔ میرا چھوٹا سا کاروبار ہے جس سے روٹی کا سلسلہ چلتا ہے۔
’’آٹھواں رنگ‘‘ میں اس کی ایک مختصر نظم ’’شودر‘‘ بھی ہے۔ قارئین! آپ کو علم ہے کہ ’’شودر‘‘ ہندوؤں کی نیچ ذات کو کہتے ہیں۔ یعنی خدمتی اور کمی لوگ۔ نظم اس طرح ہے:۔؎
پاک ٹی ہاؤس
جیہڑا آوے جاوے
اوہو
وارث، غالب، میر ، اقبال
فیض، ندیم ، دمودر
باہرلے سارے شودر
شارق کی نظم پڑھ کر میں چونکا کہ یہ ’’باہرلے‘‘ کون ہیں جن کو ’’شودر‘‘ کہا گیا ہے۔ پتا چلا کہ ’’شودر‘‘ کی اصطلاح اس نے مضافاتی شاعروں اور ادیبوں کے لیے استعمال کی ہے کہ اس کا اپنا تعلق بھی تو ایک مضافاتی شہر سے ہے۔ اس کے نزدیک ’’لہوریے‘‘ مضافاتی شاعروں اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ یعنی ان کی اپنی لابی ہے اور انہی کو Project کرتے ہیں۔