’’سب اچھا ہے‘‘

یہ پرویز مشرف کے مارشل لاء 12 اکتوبر 1999 ء سے ٹھیک ایک ماہ پہلے ستمبر کی بات ہے۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے لئے ملک کی سیاسی فضا کم و بیش وہی تھی جو آج ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے سبھی رہنما میاں نوا شریف کو اقتدار سے نکالنے کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر متفق تھے ۔اخباری خبروں اور تجزیوں کیمطابق اقتدار کے ایوانوں سے میاں صاحب کی رخصتی کے حوالے سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔۔ گو اس وقت نجی ٹی وی چینل اوران پر ’’اندر کی باتیں‘‘ بتانے والے’’ نجومی ‘‘ اینکروں کا وجود نہیں تھا مگر اس کے باوجوداقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں فریقین میں جاری کشمکش کی خبریں باہر آنا شروع ہوگئیں تھیں۔ پتا نہیں میاں صاحب کی یہ کونسی سیاسی حکمت عملی تھی کہ اپنے خلاف تمام قوتوں کے گٹھ جوڑ کے باوجود انہوں نے اپنی مصروفیات میں سے اچھا خاصا وقت کرکٹ میچوں کو دینا شروع کردیا جس کیلئے وہ کرکٹ کھیلنے تقریباََ ہرہفتہ اسلام آباد سے لاہور تشریف لاتے۔ ا ن حالات میں میاں صاحب کے خیر خواہ دیگر چند کالم نگاروں کی طرح میںنے بھی نے انہیں حالات کی سنگینی سے خبردار کرنے کے لئے اُن کی کرکٹ کھیلنے میں دلچسپی کو بنیاد بنا کر ’’بِلو بَچ کے موڑ توں‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا ۔پتا نہیں اس وقت یہ کالم میاں صاحب کی نظروں سے گزرا یا نہیں گزرا ’’قانون قدرت تو ہے ہی قانون کرکٹ بھی یہی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا’’بلے باز‘‘ بھی مسلسل پرفارمنس نہیں دے سکتا۔دو چار میچوں میں شاندار کارکردگی کے بعد ایک آدھ بار کم سکور یا صفر پر آئوٹ ہونا لازمی ہے۔کرکٹ کی دنیا میں عظیم مانے جانیوالے بلے باز سعید انور،انضمام الحق، لارا،ٹنڈولکراور مارک وا پربھی چند میچوں میں لگاتار پرفارمنس دینے کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اس برے طریقے سے ’’صفر‘‘ پر آئوٹ ہوتے ہیں کہ اس پرکھلاڑی تو کھلاڑی دیکھنے والوں کو بھی شرم آتی ہے ۔وہی کھلاڑی ان کو چاروں شانے چت کرتا ہے جس کی وہ پچھلے میچوں میں کسی چور کی طرح پٹائی کرتے ہیں۔مگر آفرین ہے ہمارے ’’بلے باز‘‘ وزیر اعظم کے جو ایک دو تین تو کیا پچھلے چھ سات برسوں سے مسلسل شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔کسی بھی میچ میں کم از کم پچاس رنز بنانا تو ان کیلئے ایسا ہی ہے جیسے قومی کرکٹ ٹیم کے بلے باز سلیم ملک کیلئے ہر میچ میں صفر پر آئوٹ ہو جانا۔شاید ہی کوئی میچ ہو جس میں انہوں نے پچاس سے کم سکور کیے ہوں ورنہ ہر میچ میں 100,95,90,80 کے قریب رنز بنانا تو ان کے معمولات میں شامل ہے بلکہ اب تو یوں لگتا ہے میاں صاحب اپنی اننگ کا آغاز ہی پچاس رنز سے کرتے ہیں۔اس شاندار کارکردگی کا سہراان کی ہنر مندی،قسمت،بالروں یا ایمپائروں میں سے کس کے سر جاتا ہے ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا یا آنے والے وقت کا حکمران۔ہمیں تو میاں صاحب کو پچھلی اننگ میں ’’سنچری‘‘ سکور کرنے کی مبارک باد دینے کے ساتھ انہیں خبردار بھی کرنا ہے کہ مسلسل شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اس ’’میچ‘‘ تک آپہنچے ہیں جہاں آکر اکثر کھلاڑی صفر پر آئوٹ ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو ایسے آئوٹ ہوتے ہیں کہ پھرساری عمر پوری کوشش کے باوجود دوبارہ فارم میں نہیں آتے جیسا کہ سپر سٹار بلے باز سلیم ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔یوں بھی حالات بدل گئے ہیں نئی انتظامیہ،غیر جانبدارانہ ایمپائرنگ اور ’’کفارے‘‘ کے لئے بے تاب نوجوان فاسٹ بالر آپ کو’’ آئوٹ‘‘ کرنے کے لئے غصے سے بھرے بیٹھے ہیں ایسی تبدیلیاں ہیں جو خطرناک حد تک آپ کے خلاف ہیں۔میاں صاحب کوئی لاکھ آپ کو ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دے حقیقت یہی ہے کہ حالات اب وہ نہیں رہے جب سارے’’ایڈوانٹیج‘‘ آپ کے پاس تھے۔ایمپائر،باؤلر اور انتظامیہ سبھی کچھ آپ کی مرضی کے مطابق تھا اور آپ پوری طرح ’’من مرضی‘‘ کرنے میں آزاد تھے۔جب چاہا جس کو چاہا چوکا ،چھکا لگا دیا۔نہ ’’بولڈ‘‘ ہونے کا خوف نہ ایل بی ڈبلیو،کیچ یا رن آئوٹ ہونے کا ڈر مخالف ٹیم کی فیلڈنگ تک آپ کی مرضی سے کھڑی ہوتی تھی۔باؤلر گیند وہاں پھینکتے جہاں آپ کو ہٹ لگانے میں زیادہ سے زیادہ آسانی ہو اور رہی سہی کسر فیلڈر پوری کر دیتے جس شاٹ پر سنگل بننا مشکل ہوتا وہاں فیلڈروں کی ملی بھگت سے ’’چوکا‘‘ ہو جاتا۔مگر وقت کی اس ستم ظریفی کو کیا کہیے کہ سدا ایک جیسا نہیں رہتا کچھ تو مخالف ٹیم میں چند ایک ضروری تبدیلیوں اور کچھ دن بدن بڑھتے ہوئے عوامی دبائو کے پیش نظر مخالف ٹیم آپ سے اگلا میچ ہر حال میں جیتنے اور آپ کو صفر پر آئوٹ کرنے کی تیاریوں میں ہے اور آپ کو پتا ہے کہ کرکٹ اور سیاست ایسا بے رحم کھیل ہے جس میں کسی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اس لئے میاں صاحب آپ کو مشورہ ہے کہ اگلی اننگ اپنے ذہن سے یہ بات نکال کر پوری احتیاط سے کھیلیں کہ اب انتظامیہ،ایمپائر یا مخالف ٹیم میں سے کوئی آپ کو سپورٹ کرے گا کیونکہ سب کی اپنی اپنی بقا کا مسئلہ ہے۔‘‘