کرونا ٹیسٹ … علاج مفت کیوں نہیں

جب سے کرونا آیا ہے ملک میں نئی فیکٹریاں کرونا ٹیسٹ اور نئے ہسپتال بن چکے ہیں۔ کیا مدینہ کی فلاحی ریاست ایسی ہی ہوتی تھی؟ یہ کرونا فیکٹریاں چلانے والے سبھی مسلمان ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ ان کے نام اور حلیہ بظاہر مسلمانوں جیسی ہیں مگر کرتوت غیر مسلم جیسے ہیں ۔لوگوں کے پاس کھانے کو زہر نہیں اور یہ چلتی پھرتی مردہ لاشوں کے ٹیسٹ اور علاج کے نام پر ان کے کفن بھی اتار رہے ہیں ۔انہیں معلوم ہے یہ دنیا میں خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ ہی یہاں سے جائیں گے۔پھر بھی انہیں کوئی شرم وحیا نہیں کہ اس مشکل گھڑی میں خدمت سے جنت کی کنجی حا صل کر لیں ۔ کرونا ویکسین لانے اور لگانے پر غریب عوام سے پیسے بٹورے جا رہے ہیں ۔ کہا جاتا ہے روس نے ہمیں غریب ملک جانتے ہوئے دو ڈالر فی کرونا ویکسین فراہم کی۔ ویکسیسن کو پاکستان لایا اس نے اسے آٹھ ڈالر میں سیل کی جس پر روسی کمپنی چیخ اٹھی کہ ہم نے غریب سمجھتے ہوئے مفت دی اور آپ نے اس پر بھی پیسے بنانے شروع کر دیئے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ وہ بندہ ہے جو خدمت کرنے حکومت کا نمائدہ بن کر آیا تھا اس پر انکوائری کرانی کی ضرورت ہے ۔ ہم مذہب سے ڈرتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی قانون سے ڈرتے ہیں کہ قانون نام کی کوئی چیز نظر بھی نہیں آتی اس لئے یہ ملک چوروں لٹیروں کی آماجگاہ ہے ۔صرف بات مانی ہے تو آئی ایم ایف کی۔ ایک دوست ا ﷲداد صدیقی نے میرے بھائی کی خریت پوچھنے کیلئے فون کیا ! پھر کہا آجکل ہر طرف کرونا کا رونا ہے مگر کروناکی مہنگائی کا رونا کوئی نہیں روتا ۔کرونا ٹیسٹ کی فیس چھ سے سات ہزا ر روپے ہے ۔ کس غریب کی پسلی ہے کہ وہ یہ ٹیسٹ کرا سکے ؟ گھر میں چھ افراد ہیں تو ایک کو کرونا ٹیسٹ پازٹیو آ جاتا ہے تو پھرباقی پانچ افراد کا ٹیسٹ بھی کرانا لازم ہے ۔ بتائیں ایسی فیملی کرونا ٹیسٹ کرواسکنے کی طاقت رکھتی ہے ۔ اگر چپ رہتا ہے تو کرونا مزید پھیلانے کا سبب بنے گا ۔ اس طرف کسی کا کچھ دھیان نہیں،حکومت شہریوں کو کوئی ریلف نہیں دے رہی ۔ کئی ممالک میں کرونا کا ٹیسٹ اور علاج مفت ہو رہا ہے جبکہ ہمارے یہاں حکومتی سطح پر کیلئے کچھ نہیں ہو رہا ۔ حکومت بھی بے بس اور غریب عوام بھی بے بس دکھائی دیتی ہے ۔کیا کیا جائے یہاں تو اب گھبرانے پر بھی پابندی ہے ۔ جائیں تو جائیں کہاں ؟ یہ سب باتیں میرا یہ دوست ایک ہی سانس میں کہہ گیا ۔ جب میری باری کچھ کہنے کی آئے تو فون کی بیٹری جواب دے گئی لیکن سوچنے اور لکھنے کو میرا یہ دوست بہت کچھ دے گیا ۔ اسی ہفتے ٹی وی چینل پر بار بار ایک نمبر دکھایا جارہا تھا کہ اپنے محبوب قائد عمران خان سے اس نمبر پر بات کر سکتے ہیں ۔ مقررہ وقت سے پانچ دس منٹ قبل بتائے گئے نمبر پر گیارہ بج کر چالیس منٹ سے کال کرنا شروع کیی مگر ہر باریہی جواب ملتا کہ نمبر بند ہے رابطہ ممکن نہیں ۔ کال کرنے کا یہ سلسلہ دو گھنٹے تک جاری رکھا مگر اس عرصے میں فون کو بند ہی پایا گیا ۔ کیا یہ درست ہے کہ پہلے سے ہی ریکارڈنگ ہو چکی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جناب وزیراعظم کو بتا دیا گیا تھا کہ یہ یہ سوال ہونگے؟ ان پر آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ کئی یار دوستوں نے کہا کہ پی ایم صاحب کرونا کے بعد پہلے سے زیادہ چاک و چوبند دکھائی دئے۔ لگتا نہیں تھاکہ انہیںکرونا نے چھوا بھی ہو۔ ورنہ کرونا تو جاتے جاتے بھی صحت خراب کر دیتا ہے ۔جس کے بعد چہرے پر بارہ بجے دکھائی دینے لگتے ہیں مگر خان صاحب تو بشاش دکھائی دئے ۔کچھ کا کہنا تھا کہ یہ کرونا سب ڈرامہ تھا وزیراعظم عمران خان کو الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس میں بلا رکھا تھامگرکرونا کا فائدہ اٹھایا گیا ۔ ہم خان صاحب کو کال اس لئے کرنا چاہتے تھے کہ کرونا پر اتنا شور شرابہ ہے مگر عملا ابھی تک کچھ نہیں ہو ا سوائے اس کے کہ آج کل جھنوں نے ماسک نہیںپہنا تھا ان بیچاروں کو پولیس مرغا بنا دیتی ہے ۔ ایف آئی آر درج کر کے حوالات میں پندرہ بیس قیدیوں کے ساتھ انہیں بند کر دیتی تھی ۔ کیا ایسا کرنے سے کرونا کو پھیلانے سے روک سکتے ہیں یا حکومتی چھتری کے نیچے کرونا پھیلایا جا رہا ہے ۔اس پر فوری ایکشن لیں ۔ سوائے سب کو بتایا جا رہا ہے کہ گھروں سے ماسک لگائے بغیر نہیں نکلنا ، چلو نہیں نکلتے ۔ کیا ہم جس ماحول میں زندگی بسرکر رہے ہیں اس سے کیا ممکن ہے کہ ہم کرونا سے بچ پائیں گے۔خان صاحب آپ کے پاس وہ سہولیات ہیں جو بائس کروڑ شہریوں کے پاس نہیں اس کے باوجود آپ کو کرونا لگا ۔ دوسرا سوال یہ کہ ہم نے خانصاحب کو اسلام آباد کچہری کاوزٹ 1998 میںکرایا انہوں نے بار سے خطاب بھی کیا تھا ۔اب انہیں ان کا وعدہ یاد دلانا مقصود ہے ۔ خان صاحب نے کہا تھا کہ میں اقتدار میں آیا تو یہاں کورٹ کمپلیکس بنا کر دونگا ۔پلیز وہ اپنے وعدہ پر عمل کریں ۔ موجودہ حالات میں آپ اسلام آباد ڈسٹرک کورٹ کو وزیراعظم ہائوس میں شفٹ کر ادیں ورنہ ترامڑی چوک اور ترنول میں ہماری عدالتوں کو تقسیم کر دیں ۔ فون پر بات کرنے کا خواب بھی پورا نہ ہو سکا۔خان صاحب کو شائد یہ یاد نہیں کہ یہاں ایک کمرے میں چھ چھ سات سات افراد ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ان کے پاس واش روم کی سہولت بھی نہیں ہوتی ۔ کیا یہ لوگ صرف ماسک پہن کر کرونا سے بچ سکتے ہیں؟ جب کہ آپ خود اور صدر مملکت سہولیات کے باوجود کرونا سے محفوظ نہیں رہ سکے تو عام شہری کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کرونا کا حل صرف ماسک لگانے سے نہیں ۔ اس کیلئے حکومت کو ہنگامی سطح پر ہر پرائیویٹ اور سرکاری اسپتالوں پر کرونا ٹیسٹ مفت کرانا ہونگے جن کے رزلٹ مثبت آ جائیں ان کا علاج بھی مفت کرانا ہو گا ۔ یہاں تو عام شہری سے پوچھا جائے کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں۔تو جواب میں کہتا ہے چار روٹیاں ! مہنگائی نے ہماری مڈل کلاس ختم کر دی ہے۔ غریب اور جانور اب اکثر اپنا رزق ایک جگہ سے تلاش کر رہے ہیں ۔ غریبوں کی بستیاں میں کرونا نے سر اٹھا لیا توپھر قبروں کے لئے زمین کم پڑ سکتی ہے ۔کبھی سوچا ہے ایک کرونا ٹیسٹ کی کیا قیمت ہے۔پھر اس کے علاج اور خوراککی کیا قیمت ہے ؟کرونا کے ایک مریض کے ٹیسٹ علاج اور خوراک کا خرچہ کم از کم ایک لاکھ روپے آ رہا ہے ۔ ایسے میں یہ غریب کہاں سے کرونا ٹیسٹ کرائے گا۔اس کا علاج کون کرے گا ؟سرکاری اسپتالوں کے متعلق مشہور ہے وہاں مفت خوروں کوونٹیلیٹر کے نیچے رکھ کر ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے ۔لہذا مدینہ کی ریاست کے دعوی دار کرونا ٹیسٹ اور علاج مفت کرانے کا فوری بندوبست کریں ، یاد رکھیں قدرت نے ہر ایک کو اپنی عاقبت سنوانے کا اچھا موقع دیا ہے۔ آئو فائدہ اٹھائیں ۔