وفاق کچھ نہیں کررہا، وزرائے اعلیٰ گھروں سے حکم دے رہے ہں : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے خلاف دائر درخواست پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جبکہ کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق معاملے کی سماعت آج پھر ہوگی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت صرف میٹنگز کررہی ہے لیکن زمین پر کچھ کام نہیں ہورہا ہے، گرائونڈ پر کیا ہورہا ہے، کسی کو علم ہی نہیں، یہ کس قسم کی ایمرجنسی ہے کہ تمام ہسپتا ل بند ہیں، پرائیویٹ کلینک بھی بند ہیں، معاملہ صرف قیدیوں کی رہائی کا نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے حکومت کورونا سے کیسے نمٹ رہی ہے، صرف میٹنگ میٹنگ ہورہی ہے، زمین پر کچھ بھی کام نہیں ہورہا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوگر اور امراض قلب کے مریض کہاں جائیں؟ عوام کو تو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، لوگوں کو ٹی وی پر بتایا جا رہا ہے گھر سے نہ نکلیں اور ہاتھ 20 بار دھوئیں، ٹی وی صبح سے شام تک لوگوں کو ڈرا رہا ہے۔ کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں، صوبائی حکومتیں پیسے بانٹ دو اور راشن بانٹ دو کی باتیں کررہی ہیں، تمام چیف منسٹر گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں، گرائونڈ پر کچھ بھی نہیں ہے۔ صوبوں کے پاس ٹیسٹ کیلئے کٹس ہی موجود نہیں، صوبے کہہ رہے ہیں 10 ارب دے دو، گلوز اور ماسک لینے ہیں، سب کاروبار بند کر دیئے گئے، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کیس کی اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے چیمبر میں بریفنگ کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیمبر میں آپ کیا بتائیں گے، ہمیں سب پتہ ہے۔ چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں ظفر مرزا کی کیا کوالیفکیشن ہے، وہ صرف ٹی وی پر پروجیکشن کرتے ہیں۔ ہمیں احساس ہے کہ امریکہ جیسا ملک بھی ہلا ہوا ہے، ہم کرونا سپیشلسٹ نہیں، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں شہریوں کے آئینی حقوق کا دفاع ہو رہا ہے یا نہیں۔ ہر ایک ہسپتا ل اور کلینک لازمی کھلا رہنا چاہئے ، یہاں تو وزارت ہیلتھ نے خط لکھا کہ سپریم کورٹ کی ڈسپنسری بند کی جائے کیوں بھائی یہ ڈسپنسری کیوں بند کی جائے؟ کیا اس طرح سے اس وبا سے نمٹا جارہا ہے؟ سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاق کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، وفاق تو کچھ کر ہی نہیں رہا، آپ نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے یہ اس بات کو واضح کررہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک رپورٹ آج بھی جمع کرائی ہے، وفاق بھرپور طریقے سے اقدامات کررہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیریں مزاری نے جواب داخل کرایا کہ پشاور ہائیکورٹ نے 32سو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا، میرے خیال میں وزارت انسانی حقوق کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کیا وزارت دفاع سے کوئی عدالت آیا ہے، وزارت دفاع سے معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے وزارت دفاع سے کسی کو طلب نہیں کیا تھا۔ وزارت قانون نے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ سیکشن 401 کے تحت انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا عملی طور پر اقدامات این ڈی ایم اے نے کرنا ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا این ڈی ایم کے ذمہ سامان کا حصول اور تقسیم ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے آج منگل تک عملی اقدامات پر مبنی جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ صوبوں کے وزرائے اعلی گھر بیٹھ کر احکامات جاری کررہے ہیں، اس بات کا احساس ہے کہ کرونا نے سپرپاورز کو بھی ہلا کر رکھ دیا، لوگوں کے ٹیسٹ کرنے کیلئے صوبوں کے پاس کٹس ہی نہیں، خیبرپی کے میں جاری 500 ملین آپس میں بانٹ دیئے گئے ،سب کازور مفت راشن تقسیم کرنے پر ہے عوام کے کاروبار ویسے ہی بند کردیئے گئے ،لالو کھیت کراچی میں جس سڑک پر پولیس پر حملہ ہوااس کا حال دیکھیں ،سڑکوں پر دھول مٹی اور کچراکسی بیماری سے کم نہیں، ہمارے ارکان اسمبلی پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے ڈررہے ہیں، یورپ امریکہ نے اس دوران وبا سے نمٹنے کیلئے قانون بنا دیا۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ہمیں لوگوں کی زندگی اور تحفظ کا احساس ہے قانون میں راستہ موجود ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ پنجاب جیل میں کرونا وائرس کا مریض سامنے آیا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جیل میں اگر متاثرہ شخص نہیں تو باقی قیدی محفوظ ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ہمیں ان حالات میں تحفظ کے ایس او پیز بنانا ہوں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ جیل کے حالات کا گھرسے موازنہ نہیں کر سکتے، توازن کیساتھ قیدیوں کی رہائی ہونی چاہئے، قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے اپنی تجاویز دے چکا ہوں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ سنگین جرم کے قیدیوں کو رہا کرنا کس طرح درست ہے؟