ہم بہت بھولے ہیں، بہت ہی بھولے ہیں اتنے بھولے ہیں کہ سات دہائیاں گذرنے کے باوجود آج بھی دوست اور دشمنوں کی پہچان نہیں کر پائے، خیر خواہوں اور بدخواہوں کے بارے جاننے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم خوشیوں سے اتنے محروم رہے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر بڑے بڑے دکھ بھول جاتے ہیں۔ آٹے کی قلت ہوئی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، شور اٹھا، ارباب اختیار نے شور کے ڈر سے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی، کمیٹی نے رپورٹ بنائی، رپورٹ منظر عام پر آئی، ایک نیا منظر نامہ پیدا ہوا، پھر شور اٹھا، الزامات لگے تردیدی بیانات آئے، حکومت نے اپنا کریڈٹ لیا، وزراء نے واہ واہ کی، مخالفین نے کارروائی کا مطالبہ کیا، سیاسی بیانات میں شدت آئی، بیرحم معاشرے میں اس نئے منظر نامے میں کہیں قہقہے لگے، ہاتھوں سے ہاتھ ٹکرائے، جملوں کا تبادلہ ہوا، انٹرویو ہوئے وضاحتیں پیش کی گئیں پھر سرکار پوری طاقت کے ساتھ حرکت میں آئی اور جے کی ٹی کو چیئرمین ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، خسرو بختیار سے فوڈ سیکیورٹی کی وزارت واپس لے کر اقتصادی امور کی وزارت دے کر سزا دی گئی ہے۔ رزاق داؤد کو شوگر ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اور مشیر صنعت و پیداوارکے عہدے سے ہٹا کر سخت سزا دے کر مشیر تجارت کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حماد اظہر کو وزارت صنعت کا قلمدان دیا گیا ہے، اس سے قبل وہ اقتصادی امور کے وزیر تھے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بڑے پیمانے پر دی جانے والی سزاؤں کی وجہ سے بابر اعوان وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور مقرر کر دیے گئے ہیں۔ اتنے بڑے بحران کے اکلوتے اور بظاہر سب سے بڑے ذمہ دار مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ محمد شہزاد ارباب کو عہدے سے ہٹا کر نشان عبرت بنا کر عوام کو پیغام دیا گیا ہے کہ مافیا کا ساتھ دینے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ اس آخری نام کو ٹھکانے لگاتے ہوئے ملک بھر میں طاقتوروں کو بھی یہ پیغام دیا گیا ہے باز آ جائیں ورنہ اتنی سخت سزائیں دی جائیں گی کہ دنیا دیکھے گی۔
قارئین جان لین کہ یہ سب تبدیلیاں آٹا اور چینی بحران کی وجہ سے نہیں ہوئیں بلکہ یہ تبدیلیاں وزیراعظم گذشتہ کئی ماہ سے کرنا چاہ رہے تھے لیکن موقع نہیں بن رہا تھا مارچ کے شروع میں وزیراعظم عمران خان شدت سے وزارتوں میں تبدیلیوں کی خواہش رکھتے تھے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے صورتحال تیزی سے بدلی اور سب کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی ان حالات میں آٹا چینی بحران کی رپورٹ نے وزیراعظم کا کام آسان کر دیا اور انہوں نے اس موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کر دی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ اتنے بڑے بحران کے بعد بھی عوام کو نقصان پہنچانے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ حکومتی سطح پر کرسیوں کی تبدیلی ہوئی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ شاید اس بحران کی وجہ سے کہیں بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ لوگوں کی خواہش بھی ہے کہ وہ سب لوگ جنہوں نے جینا مشکل کر دیا ہے ان سے جان چھوٹ جائے لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ فوری طور پر کسی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ یاد رہے کہ وزارتوں میں تبدیلیاں سزا اور جزا کے نظام کے برعکس ہیں۔ یہ تبدیلیاں بتاتی ہیں کہ فرانزک رپورٹ آنے تک وزیر اعظم نے خاموش رہنے کا پیغام دیا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ فرانزک رپورٹ آنے کے بعد وزیراعظم کو کم از کم چار افراد کی قربانی دینا ہو گی اگر فرانزک رپورٹ کے بعد بھی ان چار افراد کے ساتھ ہی آگے بڑھتے ہیں تو تبدیلی کا خواب کہیں دور چکنا چور ہو رہا ہو گا۔ اگر فرانزک رپورٹ کے بعد وزیراعظم گذشتہ روز ایسی مثالی سزائیں دیں گے تو دو نہیں ایک پاکستان کا خواب بھی ضرور بکھرے گا۔ جہانگیر ترین ناراض بھی ہیں اور انہوں نے شہباز گل کے ٹویٹ پر شدید ردعمل دینے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان سے تعلقات انیس بیس ضرور ہوئے ہیں اس سطح پر تعلقات کا انیس بیس ہونا معنی رکھتا ہے۔ جے کے ٹی نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو نشانے پر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ کے پیچھے اعظم خان ہیں اور وہ وزیراعظم کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو وزیراعظم نے اعظم خان کو مسلسل نقصان پہنچانے کی کھلی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟
جہانگیر ترین کہتے ہیں کہ جب کوئی عہدہ ہی نہیں تھا تو ہٹایا کیسے جا سکتا ہے؟
اس ساری مشق میں بوجھ تو عوام پر آیا ہے، مصیبت تو اس ووٹر کو ہوئی ہے جس نے سخت موسموں میں تبدیلی کے نعرے لگائے، پی ٹی آئی کے جھنڈے لگائے، تبدیلی کے لیے دھکے کھائے، قائدین کے جلسے کروائے، فلیکسیں اور پوسٹر لگائے۔ اس کے بعد آٹے اور چینی کے لیے دھکے کھائے پھر کرسیوں کی تبدیلیوں پر محلے والوں سے منہ چھپائے۔ کسی کا کچھ نہیں گیا لٹ تو عام آدمی گیا ہے۔ ہم آنے والے دنوں میں آٹا بحران کے اصل ذمہ داروں کو بھی سامنے لائیں گے۔ یہ بتائیں گے کہ گندم کے معاملے میں کہاں کیا ہوا اور کس نے کیا کھیل کھیلا، آٹا ملوں میں کیا ہوا، متعلقہ شعبہ کہا سویا رہا اور اس معاملے میں کس کی کوتاہی کی وجہ عوام کو تکلیف اٹھانا پڑی۔ چینی پچاس سے اسی پر چلی گئی سب سوئے رہے، دالیں اسی سے اپک سو پچاس سے بڑھ گئیں کسی کو ہوش نہیں آئی، آٹے کی قیمت مسلسل بڑھتی رہی کسی کو فکر نہ ہوئی اب چیخ و پکار کیوں ہے۔ لٹتے تھے۔ عام آدمی کو لوٹا جا رہا تھا، عام آدمی کو لوٹا جا رہا ہے، عام آدمی کو لوٹا جاتا رہے گا۔ یہ سچ ہے اور یہی تلخ حقیقت ہے۔
ہمیں کبھی روٹی کپڑا اور مکان، کبھی جہاد افغانستان، کبھی جمہوریت کا پیغام، کبھی سب سے پاکستان،کبھی جمہوریت ہے بہترین انتقام اور کبھی ہے نیا پاکستان جیسے نعروں کے پیچھے بھگایا گیا ہے۔ ہم بھاگتے بھاگتے تھک گئے ہیں، ہم لٹتے لٹتے تھک گئے ہیں، ہم اجڑتے اجڑتے تھک گئے ہیں لیکن حکمرانوں اور سیاست دانوں کے سینے میں شاید ہڈی والے دل ہیں شاید ان کے دماغ صرف جمع تقسیم کے وقت ہی کام کرتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ میں کہیں عوام کا دکھ درد نہیں کہیں مظلوم و محروم طبقے کی سوچ نہیں۔ حکمران کا جہاں اور ہے غریب پاکستانی کا جہاں اور۔
عام آدمی کو شاید آج بھی وزیراعظم عمران خان سے امید ہو لیکن اس ٹوٹی امید میں وہ کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔ میرے محترم وزیراعظم اس طرف کب توجہ دیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024