کرونا جیسی عفریت کا اندازہ پاکستان میں ایک ماہ پہلے بھلا کس کو معلوم تھامگر اچانک دیکھتے ہی دیکھتے چین میں تباہی لانے کے بعد یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اور آج کی تازہ ترین اطلاع آنے تک اس نے پوری دُنیا میں یعنی یکم اپریل 2020 تک کُل775540 مریضوں کو متاثر کیا ہے اور 37091 مریضوں کو موت کے منہ مین دھکیل دیا ہے۔جس میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ غریب اور ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہیں۔ آج 7 اپریل 2020 کو پوری دنیا میں عالمی یوم صحت (ورلڈہیلتھ ڈے)منایا جا رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی زیر سرپرستی یہ عالمی یوم صحت پاکستان میں بھی منا یا جا رہا ہے ۔اتفاق کی بات ہیں کہ اس دفعہ عالمی یوم صحت کرونا جیسی عفریت کے ہوتے ہوے سامنے آیا ہے ۔اور اب ہما رے لئے بھی انتہائی اہم ہے کہ اس دن کی منا سبت سے بھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے تا کہ ایک عام انسان کرونا COVID-19 جیسی پیچیدہ بیماری کو جان سکے اور اسی طرح کی دیگر پیچید گیوں اور سنجیدا مسائل کا حل کر سکے ۔1948 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنا ئزیشن WHO نے با قاعدہ 7 اپریل کو اپنے کام کا آغازکیا تھا۔ گویا کہ اس دن WHOکی بنیا د رکھی گئی ۔ اُسی سال بالکل پہلی دفعہ ،پہلی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کا انعقاد کیا گیا ۔ اس اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ 1950 سے ہر سال 7 اپریل کا دن ورلڈ ہیلتھ ڈ ے کی حیثیت سے منایا جایا کرے گا۔ ہر اُس خاص مو ضوع پر WHO اس دن بین ا لاقوامی ، علاقائی اور مقامی فنکشنز اور ایوینٹس کا باقاعدہ انعقاد کراتی ہے ۔مگر افسوس صد افسوس! اس عالمی صحت کی حقیقت سے نا صرف پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں بالکل بے خبر ہیں بلکہ پاکستانی میڈیا چاہے وہ الیکڑونک ہو یا پرنٹ میڈیا دونوں یکسر غافل ہیں۔کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آج اربوں روپے میڈیکل شعبہ میں ہونے والی تحقیق، تعلیم و تربیت اور ساتھ ہی مختلف اداروں ہسپتالوں اور دیگر میڈیکل شعبہ میں کام کرنے والے افراد پر خرچ ہو رہے ہیں۔ مگر انکے باوجود پاکستان میں کرونا جیسا مسئلہ گھمبیر صورت حال اختیار کر چکا ہے ۔ پاکستان میں Health Educationکا مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ جتنی اہمیت کسی بھی بنیادی تعلیم کو دیں۔ میری نظر میں جتنا کثیر سرمایہ بنیادی مراکز صحت، تحصیل اور ضلعی ہسپتالوں اور دیگر اقسام کے مراکز صحت اور انفراسٹر کچر کے اجرا اور تعمیر و ترقی پر لگایا جاتا ہے۔ اس سے کچھ کم مقدار کا سرمایہ اگر بنیادی تعلیم صحت پر خرچ کیا ہوتا تو میرا دعویٰ ہے کہ یہ ہسپتال اور کلینک چاہے سرکاری ہوں یا نجی ملکیت کے سب ویران ہو جاتے اور کوئی کرونا کا مریض ڈونڈھنے سے بھی نا ملتا ۔انتہا ئی شرم اور ُدکھ کا مقام ہے کہ سرکاری الیکٹرانک میڈیا اور پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس نازک موضوع پر اب سے پہلے بالکل غور نہ کیا اور عمل تو بہت دور کی بات تھی۔پاکستان میں اس عالمی یوم صحت کو منانے کے اغراض و مقاصد اختصار کیساتھ مندرجہ ذیل ہے۔٭پاکستانی عوام کوصحت کے جملہ مسائل کے بارے میں مکمل اور قابل اعتماد آگاہی ہو سکے۔ ٭پاکستانی عوام اس قابل ہو سکیں کہ آئندہ آنے والے وقت میں صحت سے متعلق قابل اعتماد معلومات میں تفریق کر سکیں۔٭پاکستانی عوام مختلف شعبہ ہائے صحت کے نظام سے واقفیت حاصل کر سکیں۔ تاکہ ضرورت کے وقت صحیح مشیر صحت یا معالج کا نتخاب کر سکیں۔٭پاکستانی عوام اپنی اور اپنے خاندان اور اپنے معاشرے میں موجود ارد گرد کے افراد کی صحت اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں مکمل طور آ گاہ ہو سکیں۔ ٭پاکستانی عوام اپنے اور ان کی صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہتر فیصلے کر سکیں۔ ٭پاکستانی عوام از خود اپنی صحت کے تمام مسائل کو اجتماعی اصلاح کے لیے معاشرے میں چلنے والی اجتماعی تحریک میں بہتر طور پر شرکت کر سکیں۔٭پاکستانی عوام عطائیت جیس بر ی لعنت کی حقیقت سے آشنا ہو سکیں۔٭پاکستانی عوام عطائی اور اسکی عطائیت کو آسانی سے پہچان سکیں اور عطائیت جیسی بری لعنت سے مکمل طور پر چھٹکارہ پاسکیں۔ ٭پاکستانی عوام خود ساختہ علاج معالجہ جو کہ"حدود تحفظ" میں رہ کر کیا جا سکے کو جان سکیں اور استعمال کرسکیں۔٭پاکستانی عوام بطور"صارفین صحت" اپنے حقوق سے آگاہ ہو سکیں۔٭پاکستانی عوام انسانی صحت اور تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول کا باہمی تعلق سمجھ سکے۔٭پاکستانی عوام صحت عامہ کو درپیش مختلف قسم کی آلودگیوں(Pollution) کا شعور حاصل کر سکیں۔٭پاکستانی عوام اپنی صحت کو ماحول کی آلودگی سے بچانے کے طریقے اور اطوار سے واقف ہو سکیں۔٭پاکستانی عوام اپنی صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مضر صحت اور بے ضرر روز مرہ اشیاء خوردونوش کی بھرپور پہچان اور باہمی تمیز کر سکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024