تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے نو ماہ ہونے کو ہیں لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات کار خوشگوار تعلقات کار قائم نہیں ہو سکے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کے پارلیمانی ماحول پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت ایک طے شدہ پالیسی کے تحت خود کو بھی سیاسی حالت’’ جنگ ‘‘ میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ لوگوں کی توجہ ہوشربا مہنگائی سے ہٹ جائے اور وہ سیاسی مخالفین کو ’’چور چور اور ڈاکو ڈاکو ‘‘ کہہ کر اپنا وقت گذارنا چاہتی ہے اور تمام مسائل کا ذمہ دار مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کو قرار دے کر خود کوبری الذمہ قرار دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ پچھلے نو ماہ میں قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیراعظم عمران کان اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے درمیان ’’رسمی‘‘ مصافحہ ہی ہوا ہے، دونوں کے درمیان پارلیمانی امور پر ایک ملاقات بھی نہیں ہو سکی۔ وزیر اعظم اپنے آپ کو اپوزیشن سے ایک ’’فاصلہ‘‘ پر رکھنا چاہتے ہیں وہ سرے سے ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں جو ان کے سیاسی ’’دشمن ‘‘ ہیں لہذا وہ ان سے ہر محاذ پر ’’جنگ‘‘ جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری پر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ’’بامعنی ‘‘ مشاورت نہیں ہو سکی۔ جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیشنل ایکشن پلان پر پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو بریفنگ دینے کے لئے خط کے ذریعے مدعو کیا تو اپوزیشن نے نیشنل ایکشن پلان پر 28 مارچ 2019 ء کو دی جانے والی بریفنگ کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان نے بھی شرکت نہیں کرنا تھی۔ اس لئے اپوزیشن نے معقول جواز بنا کر بریفنگ کو ہی منسوخ کروا دیا ۔ قبل ازیں پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو قومی سلامتی کو لاحق خطرات اور پاکستان کی دفاعی تیاریوں کے بارے میں دی جانے والی ان کیمرہ بریفنگ میں بھی وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ مل بیٹھنے سے گریز کیا۔ لہذا وزیراعظم عمران خان کے اس طرز عمل کے بعد اپوزیشن نے حکومت کے بارے میں سخت رویہ اختیار کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے وزیراعظم کے بغیر کسی بریفنگ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا جبکہ دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری طنزیہ انداز میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ جب وزیراعظم اپوزیشن سے ملنا نہیں چاہتے تو وہ کیوں ان سے ملاقات پر مصر ہے۔ ‘‘بہرحال اپوزیشن کے رہنمائوں نے بھی دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اگر وزیراعظم اپوزیشن سے ملنے کے لئے تیار نہیں تو وہ بھی ان سے ملاقات کے لئے نہیں مری جا رہی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب اپوزیشن نے حکومت کی توجہ الیکشن کمیشن کے دو ارکان (سندھ و بلوچستان) کی مدت ختم ہونے کی طرف مبذول کرائی تو حکومت نے بھی کمال مہربانی سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اپوزیشن کو خط لکھنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ وزیر خارجہ کی طرف سے ایڈیشنل سیکرٹری کا لکھا ہوا خط موصول ہونے پر اپوزیشن نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ’’ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری صرف قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ون آن ون ملاقات میں ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے کسی تیسرے فریق کو ذمہ داری نہیں دی جا سکتی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی طرف سے قدرے سخت رویہ اختیار کرنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے قائد حزب اختلاف کو ایک خط لکھا جسے اپوزیشن لیڈر نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ان کے نام وزیر اعظم کے اپنے دستخطوں سے خط آنا چاہیے۔ اب وزیراعظم نے انھیں اپنے دستخطوں سے ایک خط لکھ دیا ہے لیکن یہ خط بھی کسی کو ایڈریس کیا گیا اور نہ ہی سلام دعا کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کو الیکشن کمیشن کے ارکان کے لئے بھجوائے گئے پینل اور وزیراعظم کی طرف سے بھجوائے گئے پینل ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے معاملے پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو لکھا گیا خط بھی وجہ تنازعہ بن گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے خط میں قرآنی آیات اور کئی عدالتی فیصلوں کا بھی حوالہ دیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے مطابق معاملے پر مشاورت تحریری طور پر بھی کی جاسکتی ہے۔ امید ہے آپ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کے معاملے پر مشاورتی عمل کا حصہ بنیں گے۔ مشاورتی عمل کا حصہ نہ بننے پر یہ تصور کیا جائے گا کہ آپ مشاورت سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ خط کے جواب میں تحریری طور پر آپ بھی الیکشن کمیشن ارکان کی تعیناتی کے لئے ارکان کے نام نامزد کریں۔ وزیراعظم کا خط موصول ہونے کے بعد متحدہ اپوزیشن کا ایک غیر معمولی اجلاس میاں شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں جہاں قومی اسمبلی کے 12 اپریل 2019 کو ہونے والے قومی اسمبلی کے دسویں سیشن کے بارے میں حکمت عملی تیار کی گئی وہاں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کے بارے میں موصول ہونے والے خط کے مندرجات پر بھی غور کیا گیا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو الیکشن کمیشن کے ارکان کی نامزدگی کے لئے اپوزیشن کی طرف سے نام کو کوئی حتمی شکل دے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی ایڈوائزری کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بھی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت منعقد ہو چکا ہے جس میں حکومت کے ساتھ ’’پارلیمانی تعلقات کار ‘‘ کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے پر اظہار تشویش کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں قائد حزب میاں شہباز شریف سے ’’بامعنی‘‘ مشاورت سے گریز کو آئین کے منافی قرار دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی ایڈوائزری کمیٹی نے وزیر اعظم عمران خان کے میاں شہباز شریف کے نام خط کا جواب تیار کر لیا ہے خط کا ڈرافٹ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ کو بھجوایا گیا جس کی بلاول بھٹو زرداری نے بھی منظوری دے دی ہے ۔ معروف قانون دان کامران مرتضی نے خط کے مندرجات کو تحریر کیا ہے ۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے جوابی خط میں وزیراعظم کے خط پر اعتراض اٹھایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کے ارکان کے نام پہلے بھیجے ہیں اور مشاورت بعد میں کر رہے ہیں۔مسلم لیگ(ن)کے رہنما احسن اقبال نے راقم السطور سے گفتگو کرتے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کا طریقہ کار آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہونا چاہیے۔ جمہوریت میں وزیر اعظم کے ساتھ اپوزیشن کا برابر کا کردارہوتا ہے لیکن وزیر اعظم مسلسل اپوزیشن کو نظر انداز کر کے جمہوری عمل کی نفی کر رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف کی طرف سے لکھے گئے خط کو الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری پر سپریم کورٹ کے فیصلوں کو پیش نظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ تاہم حکومتی طرز عمل پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ جوابی خط کے بعد اس معاملہ پر مزید پیش رفت ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان کو الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے لئے نام نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہ نام الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لئے قائم کردہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کئے جائیں گے ۔ میاں شہباز شریف کی جانب سے لکھے گئے خط میں وزیر اعظم عمران خان کے خط کا پیرا وائز جواب دیا گیا ہے ۔6نکاتی جواب میں وزیر اعظم سے کہا گیا ہے ان کے خط کے ذریعے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان کی تقرری بارے میں ’’بامعنی ‘‘ مشاورت نہیں ہوئی اس کے لئے بالمشافہ ملاقات سے ہی آئینی طور پر مشاور ت ہو سکتی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جنوری 2019ء کو الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی مدت ختم ہو گئی وزیر اعظم کو 40روز قبل اپوزیشن لیڈر سے مشاورت شروع کر نی چاہیے تھی دوسری طرف پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشیدشاہ نے بھی الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری پر وزیر اعظم سے مزید خط وکتابت نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ عمران خان مودی کیساتھ بیٹھ سکتے ہیں ،اپوزیشن کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟ وزیراعظم ارکان کی تقرری پر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتے فاصلے جمہوری نظام کے عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024