وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ وہ پاکستان کے چیف جسٹس محترم میاں ثاقب نثار کے پاس فریادی بن کر پاکستان کی فریاد لے کر گئے تھے۔ وہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں یہ ان کا حق ہے کہ پاکستان کے قومی مفاد میں ہو تو وہ چیف جسٹس سے معاونت اور رہنمائی حاصل کریں۔ نیتوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وزیراعظم نے بیس کروڑ عوام کی ترجمانی کی یا اپنی جماعت کے لیڈروں کو احتساب سے بچانے کی کوشش کی۔ پاکستان کے سیاسی لیڈروں کے بیانات زیادہ تر الزامات اور بلند بانگ دعوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان میں قرآن کی روح، ریاست سے محبت اور عوام سے ہمدردی کا جذبہ نظر نہیں آتا۔ قحط الرجال کے اس دور میں چیف جسٹس پاکستان اور چیئرمین نیب کے بیانات اور اقدامات ایمانی پاکستانی جذبے اور عزم سے سرشار ہیں جنہوں نے مایوس عوام کے دلوں میں اُمید کے چراغ روشن کیے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ اگر شہید ملت لیاقت علی خان کے ایک تاریخی بیان کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھے تو شاید وہ اپنا سیاسی بیانیہ تبدیل کرلے۔ قائد ملت نے اپنے خطاب 14اگست 1951ء میں کراچی میں فرمایا ’’میرے پاس دولت نہیں میں جائیداد کا مالک نہیں، میرے پاس کچھ نہیں کیوں کہ یہی چیزیں ہیں جو انسان کے ایمان میں خلل ڈالتی ہیں۔ اس کے عقیدے کو کمزور کرتی ہیں۔ صرف ایک جان میرے پاس ہے وہ بھی چار برس سے پاکستان کے لیے وقف ہے۔ اگر پاکستان کی بقا کے لیے پاکستان کی عزت کے لیے قوم کو خون بہانا پڑا تو لیاقت کا خون اس میں شامل ہوگا‘‘۔ قائداعظم کی رحلت اور قائد ملت کی شہادت کے بعد پاکستان کی حالت بقول شاعر کچھ یوں ہوچکی ہے۔
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیے
افسوس پاکستان کا سیاسی سفر عروج سے زوال کا سفر ہے۔ آج جو سیاستدان ریاست پر قابض ہیں ان کا موازنہ بھی قائداعظم اور لیاقت علی خان سے نہیں کیا جاسکتا۔ ہائے چہ بلندی اور چہ پستی کیا ایٹمی ریاست کے بیس کروڑ عوام کا یہی مقدر ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف احتسابی کاروائی کی۔ ان کو سیاست اور ملازمت سے نکالا گیا مگر یہ نسخہ کارگر ثابت نہیں ہوسکا اور آج صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران کرپشن اور بیرونی قرضوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے ہیں۔ مرد قلندر چیف جسٹس پاکستان اور مرد مجاہد چیئرمین نیب جانتے ہیں کہ پاکستان کے غریب اور مقروض عوام کو کس سنگدلی اور بے دردی سے لوٹا گیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عوام زہریلا پانی پی کر مررہے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو دوائی میسر نہیں ہے۔ معیاری تعلیم عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہے۔ بڑے شہروں میں کوڑے کے ڈھیروں نے فضا کو آلودہ کررکھا ہے۔ عوام دشمن تھانہ کلچر پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا ہے۔ کچہریوں میں رشوت عام ہے۔ شہری اپنے جائز کاموں کے لیے بھی رشوت دینے پر مجبور ہیں اور عام شہری کی زندگی بیمار کی رات ہوگئی ہے۔حکمران اشرافیہ اپنی مجرمانہ غفلت کا اعتراف کرنے کی بجائے لوٹ مار بھی کرتی ہے اور اکڑتی بھی ہے اور اپنی لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کے لیے اپنے حامیوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے پر بھی مائل ہے۔ پاکستان کی خاموش اکثریت چیف جسٹس پاکستان اور چیئرمین نیب کی جانب دیکھ رہی ہے جو چین کے کامیاب احتسابی ماڈل پر عمل کرکے قومی لٹیروں سے نچات دلانے کا قانونی اختیار اور عزم رکھتے ہیں۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق چین کے احتسابی ادارے نے 2017ء میں 13لاکھ شکایات وصول کیں۔ 2لاکھ 60ہزار کے خلاف انکوائری ہوئی جن میں سے 2لاکھ دس ہزار افراد کو سزائیں سنائی گئیں جن میں وزیر اور اعلیٰ افسر شامل ہیں۔ چین میں کرپشن کرنے والے کے لیے سزائے موت رکھی گئی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مجرموں کی پکڑ دھکڑ اور تفتیش کی خبریں تو سننے کو ملتی ہیں مگر ان کو سزائوں اور ان پر عملدرآمد کی خبریں سننے کے لیے عوام کے کان ترس چکے ہیں۔ نیب کے مرد مجاہد چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے روح پرور اعلان کیا ہے کہ احتساب ڈرامہ ختم اور اصل یکساں، شفاف احتساب شروع ہوچکا ہے۔ نیب نے گزشتہ چھ ماہ میں کرپٹ عناصر سے 50بلین روپے وصول کیے ہیں جو اطمینان بخش کارکردگی ہے جسے عالمی تنظیموں نے سراہا ہے۔ 197بااثر افراد کے خلاف کرپشن کے ریفرینس دائر کیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار اللہ پر کامل ایمان کے جذبے اور عوام دوستی کے لازوال عزم کے ساتھ ہر قسم کے خوف و ہراس اور دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے مقدس مشن کی تکمیل کے لیے شب و روز جدوجہد کررہے ہیں۔انہوں نے سبق آموز تاریخی جملہ کہا ہے کہ انسان کو منصب ملے تو وہ اپنے منہ پر غلاظت مل کرکیوں جائے اور اپنی عاقبت کیوں نہ سنوارے۔ان پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے۔ ؎
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ
پاکستان کے نشیب و فراز اور دشمن طاقتوں کے عزائم سے آگاہ ، اہل نظرو دانش انتباہ کررہے ہیں کہ پاکستان کے پاس وقت نہیں رہا۔ اگر احتساب کے عمل کو اس حساس موڑ پرروکا گیا تو یہ اقدام اجتماعی قومی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان اور چیئرمین نیب سے 98فیصد شہریوں کی فریاد ہے کہ وہ اپنے اہداف مقرر کریں اور ان کو انتخابات سے پہلے پورا کریں تاکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو روکنے والے قومی لٹیرے قانون کے شکنجے میں آجائیں اور وہ دوبارہ منتخب ہوکر سیاست اور معیشت پر قابض نہ ہوسکیں۔ میگا کرپشن میں شامل لٹیروں کو عبرتناک مثال بنا کر ہی ریاست کی ترقی کا بند دروازہ کھولا جاسکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ قومی لٹیرے دوبارہ منتخب ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے تو وہ پاکستان پر مکمل اور مؤثر ’’ڈاکو راج‘‘ نافذ کردیں گے اور ایٹمی ریاست لٹیروں کی ذاتی جاگیر بن کر رہ جائے گی۔ پاکستان کے چیف جسٹس، پاکستان کے سپہ سالار اور چیرمین نیب ہی ریاست کو خوفناک مستقبل سے بچا سکتے ہیں۔
وطن دوست شخصیات ادارے برباد نہیں تعمیر کرتے ہیں۔ حکیم سعید شہید کے ادارہ ہمدرد شوریٰ کے ماہانہ فکری اجلاس باقاعدگی کے ساتھ جاری ہیں جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہر کے نمائندہ افراد شریک ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سابق دانشور رکن قومی اسمبلی محترمہ بشریٰ رحمن کی صدارت میں ’’قائداعظم کے سیاسی بیانیے اور موجودہ سیاسی صورتحال‘‘ پر معیاری فکری نشست کا انعقاد ہوا جس میں بریگیڈئیر(ر) حامد سعید، بیرسٹر احمد اویس، ابصار عبدالعلی، شعیب مرزا، محترمہ خالدہ جمیل، ظہیر میر، میجر(ر) صدیق ریحان، چوہدری بشیر احمد، الطاف قمر، پروفیسر خالد عطا، پروفیسر اے آر چوہدری، طفیل اختر، ڈاکٹر طارق شریف پیرزادہ، محترمہ شائستہ ایس حسن اور راقم نے اظہار خیال کیا۔ مقررین نے کہا کہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے نئی ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق جو سیاسی اور معاشی بیانیہ تشکیل دیا تھا پاکستان کو اس کے مطابق چلانے کی بجائے انگریزوں کے نظام کے تحت چلایا جارہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہوچکا ہے۔ قائداعظم نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان کا سیاسی و معاشی نظام اسلام کے سنہری اُصولوں جمہوریت، مشاورت، مساوات، انصاف، امانت، دیانت، صداقت، برداشت کے مطابق وضع کیا جائے گا جس میں ریاست کے تمام شہریوں بشمول غیر مسلم کو بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب ترقی کرنے کے مساوی مواقع مل سکیںگے۔ مقررین نے کہا کہ جب تک پاکستان کے موجودہ مغربی سیاسی و معاشی نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا پاکستان ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ قائداعظم کا سیاسی بیانیہ آج بھی قابل عمل ہے اور پاکستان کی سیاسی معاشی اور سماجی امراض کے لیے نسخۂ کیمیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم نے 1947ء میں جغرافیائی آزادی تو حاصل کرلی مگر فکری آزادی ہنوز حاصل نہیں ہوسکی۔ قائد اور اقبال کا اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق حقیقی عوامی جمہوری اور فلاحی ریاست کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38