ایک بار ایسا ہوا کہ ملک حامد سرفراز اور میں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں نظر بند تھے۔یہ1983ء کی تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D)کے دنوں کی بات ہے ۔ساتھی تو ہمارے اور بھی بہت سے تھے جن کا ذکر پہلے بھی کئی بار ہوچکا اور آئندہ بھی ان جگرداروں اور قوم کے محسنوں کا ہوتا رہے گا ۔فی الحال اس ایک دوپہر کا ذکر ہے جو اپنی تندی اور حبس کی وجہ سے آج تک نہیں بھول سکی۔اکثر ساتھی گرمی کی شدت کی بناء پر قمیض اتار کرہی بیٹھے ہوئے تھے،ویسے بھی جیل کی بارکوں اور کوٹھڑیوں میں سیاسی ساتھیوں میں کون سا پردہ باقی رہ جاتا ہے ۔سب کا کردار ،جرات ،حوصلہ مندی ،بزدلی اور کمینگی سامنے آنے میں چند ہی تو دن لگتے ہیں۔بہر حال اس دوپہر میں نے ملک صاحب کی سیاسی زندگی کے ماضی پر بات کرتے ہوئے بہت سے واقعات سے آگاہی حاصل کی۔"حسین شہید سہروردی"ان کا پسندیدہ موضوع تھا ۔ قائد اعظم کے بعد اگر کسی کو انہوں قومی راہنما سمجھا تو وہ سہروردی صاحب ہی تھے۔ان کے تذکرے اور باتیں ہوتی ر ہیں۔وقت گذرتا رہا اور شام کو بادل برسنا شروع ہوئے ،ہوائیں چلیں تو ساون کے گیت بھی یاد آنے لگے مگر سہروردی صاحب کے ایمان افروزتذکروں کالطف ان سے بھی سواتھا۔ملک صاحب نے اپنی ساری سیاسی زندگی سہروردی صاحب کی سیاسی جماعت عوامی لیگ میں صرف کی تھی۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جو عوامی لیگ کے تانے پیٹے تک سے آگاہ تھے۔اس سوال کے جواب پر کہ سہروردی صاحب پر کچھ لکھیں،توانہوں نے جواب دیا کہ لکھنا لکھانا میری افتادطبع نہیں ہے اگر ہوتی بھی تو جیسا کچھ آغاشورش نے اپنی تصنیف"حسین شہید سہروردی"میں ان کی ذات ،سیاست ،ذاتی زندگی،قومی خدمات اور ان کے سلسلہ ء سہروردیہ پر لکھ دیا ہے ،برصغیر میں شائد ہی کوئی دوسراان سالکھ سکے ۔انہوں نے ایک چھوٹی سی کتاب میں جس طرح ایک بڑے آدمی کو سمودیا ہے یہ کام کوئی جادوگر ہی کرسکتاتھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آغا صاحب اپنے نوک قلم سے جو انشا ترتیب دیتے تھے وہ آغا صاحب ایسے ادبی ساحر کاہی کام ہوسکتا ہے جوخود ہرقسم کے سیاسی تجربات کی بھٹی سے کندن بن کرنکلاہو۔ویسے بھی میں نے ملک صاحب کو جب بھی آغا صاحب سے ملتے دیکھا تو ان سے جھک کرملتے ۔ورنہ جھک کرملنا تو ملک صاحب کی لغت میں ہی نہیں تھا۔ حسین شہید سہروردی پہلے مغربی بنگال کے شہر کلکتہ کے ڈپٹی میئر منتخب ہوئے ۔پھر میئر اور پاکستان بننے کے وقت تک وہ مغربی بنگال کے وزیر اعلی تھے۔کلکتہ کے مسلمان خوشحال اور بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک تھے۔ہندوئوں نے ان کی املاک پر نظریں جمائیں اوران کے قتل عام کا منصوبہ بھی تیارکرلیا ۔سہروردی صاحب کو جب ان کے گھنائونے عزائم کا پتہ چلاتو وہ پاکستان آنے کی بجائے کلکتہ میں ہی موجود رہے تاکہ اس قتل عام کو روکا جائے جس میں لاکھوں مسلمانوں کی لاشیں بچھانے کا ناپاک منصوبہ شامل تھا۔بلکہ انہوں نے پنجاب آکریہاں سے سینکڑوں طاقتور نوجوانوں کوپولیس میں بھرتی کیا اور کلکتہ لے جاکر ان کے مسلح دستوں سے مسلمانوں کی حفاظت کا انتظام کیا۔اس مرحلے پر قتل عام کو روکنے کیلئے گاندھی نے بھی سہروردی صاحب کا ساتھ دیا۔جس پر ہندو ذھنیت مزید مشتعل ہوگئی۔انہوں نے سہروردی اور گاندھی دونوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔"گاڈز ے"نامی ایک قاتل جب سہروردی صاحب کو قتل کرنے گیا تو وہ اپنی خواب گاہ میں سورہے تھے۔گاڈزے نے کھڑکی سے گولی چلانے کی کوشش کی تو اسے محسوس ہواکہ جیسے سہروردی صاحب جاگ رہے ہوں۔قاتل نے کچھ توقف کیا کہ وہ مکمل طورپر سوجائیں تو گولی مارکر کام تمام کردوں ۔مگر چند ہی منٹوں بعد وہ نیند سے بیدار ہوچکے تھے۔دراصل سہروردی صاحب چوبیس گھنٹوں میں پینتالیس منٹ سوتے تھے۔اس مرض کو انسومینا(INSOMNIA) کہا جاتا ہے ۔یہ بڑے لوگوں کی بیماری کہلاتی ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو ددگھنٹے اور نواب اکبربگٹی ایک گھنٹہ سوتے تھے ۔بات ہورہی تھی سہروردی صاحب کے قتل کی توجب گاڈزے نے دیکھا کہ سہروردی بیدار ہوگئے ہیں تو وہ وہاں سے فرارہوگیا۔شائد اسی وقت یاکچھ دنوں بعداس نے گاندھی کو گولی مارکرقتل کردیا۔پھر جب سہروردی صاحب پاکستان آگئے تو1956ء میں وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے ۔سیاسی کارکنوں سے انہیںکس قدر پیار تھا، احمد سعید کرمانی ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ کلکتہ میں سی ۔آر داس ایک بہت قابل اور کامیاب وکیل تھے وہ اس زمانے میں بھی تیس ہزار روپے ماہوار کماتے تھے مگر ساری دولت ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔یہی حال سہروردی صاحب کا تھا ،وہ بھی اس کے لگ بھگ کماتے مگر سب کچھ سیاسی کارکنوں کی نذرکردیتے۔بلکہ ایک روائت کے مطابق تو کئی ایک کارکن سوتے ہوئے ان کی جیب سے پیسے بھی نکال لیتے تھے جن میں بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان سب سے زیادہ بے باک تھے ۔بطور وزیر اعظم وہ ایک بار گوجرانوالہ اپنے انتہائی غریب سیاسی کارکن خلیفہ امام دین بقاء کے ڈھائی مرلہ کے گھر آئے ۔کھانا بھی وہیں کھایا ،لوگ دنگ رہ گئے کہ کیا وزیر اعظم بھی کسی سیاسی کارکن کی کٹیا میں آسکتا ہے مگر سہروردی صاحب نہائت درویش اور کارکن نواز آدمی تھے۔دوسری بار تب گوجرانوالہ آئے جب انہوں نے وزارت عظمی سے استعفی دے دیااور ایوب خاں نے ان پر"ایبڈو"قوانین کے تحت سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا تو انہوں نے عوامی دوروں کا آغاز گوجرانوالہ سے کیا۔
سہروردی صاحب کا باب زندگی بہت طویل ہے ۔ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آخری پل تھے جنہیں ایوب خاں کے دور میںبیروت کے ایک ہوٹل میں پراسرار طورپر قتل کردیا گیا۔ان کی زندگی پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر کوئی ڈھونڈنے نکلے تو ان سا راہنما نصیب ہونا اب ہماری قسمت میں نہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024