اردو کو ذریعہ تعلیم نہ بنانے سے ملک کے جو ہر قابل غربت کے اندھیروں میں ڈوب گئے : صدر ممنون
اسلام آباد( وقائع نگار خصوصی+ صباح نیوز) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ قومی زبان کو ذریعہ تعلیم نہ بنانے سے ملک کا جوہر قابل غربت کے اندھیروں میں ڈوب گیا اورکتاب سے دوری نے عالمی سطح پر بے چینی اور خونریزی کا راستہ کھولا ہے۔ علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کو قومی زبان سے وابستہ کردیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار صدر مملکت نے نیشنل بک فاونڈیشن کے زیر اہتمام سالانہ کتاب میلہ سے خطاب کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر مشیر وزیر اعظم برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ صدر نے کہا کہ کتاب اور انسان کے تعلق کا نکتہ عروج قرآن حکیم ہے جس نے بھٹکتی ہوئی انسانیت کو منزل کا پتہ دیا ، یوں انسانیت تہذیب کی بلندیوں پر جا پہنچی ۔ اِس سال کتاب میلے کے لیے اس مرکزی خیال کے موزوں انتخاب پر میں نیشنل بک فاونڈیشن نڈیشن کے سربراہ اور ان کے رفقائے کار کو مبارک باد دیتا ہوں ۔ ہماری آج کی دنیا میں جو پریشانیاں ، مشکلات اور دکھ نظر آتے ہیں ، ان کا سبب کتاب سے دوری ہے ۔ آج دنیا کے مختلف حصے جس بے چینی ، افراتفری اور خون ریزی کا شکار ہیں، اس کے پس پشت انسانی لالچ ، حرص و ہوس اور خواہشات کے لامتناہی سلسلے کارفرما ہیں جن کی تکمیل کے لئے انسانی ذہن ہی معاون بنتا ہے۔ ان منفی افکار و خیالات کو مثبت اور مفید قوت میں بدلنے کا سب سے موثرذریعہ کتاب ہے ۔پاکستان کے ادیبوں ، دانشوروں ، کتاب گروں اور کتاب خوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اسی مشن کی تکمیل پر صرف کر دیں۔ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ علمی سرگرمیوں کو قومی زبان سے وابستہ کر دیا جائے تاکہ حصولِ علم کے سلسلے میں قوم کے کسی فرد کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوسکے۔ اس کی دوسری شرط یہ ہے کہ مقامی حالات اور ماحول کے مطابق تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ یہ دونوں کام اسی صورت میں انجام پا سکتے ہیں ، اگر ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبہ علم سے متعلق لٹریچر بآسانی اور کم قیمت پر دستیاب ہو ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق دنیا کے مختلف حصوں میں شائع ہونے والی کتابوں کا ترجمہ فوری طور پر قومی زبان میں شائع کیا جائے ۔ صدر نے کہا کہ تعلیم و تعلم ، طب و صحت اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دیگر مختلف شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کے باوجود ہمارے ہاں بعض اوقات پریشانی اور بے بسی کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ مقامی طور پر تحقیق و دریافت کا سلسلہ جڑ نہیں پکڑ سکا ۔ میری نظر میں زبان کے مسائل کی وجہ سے اعلی تعلیم صرف وسائل رکھنے والے طبقات تک محدود ہوگئی۔ اس طرح بیس بائیس کروڑ آبادی کے ملک کا جوہر قابل غربت کے اندھیروں میں گم ہوکر رہ گیا ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے اصحابِ دانش مسئلے کو سمجھ چکے ہیں اور اس کے حل کے لیے لائحہ عمل بھی ان کے سامنے واضح ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہلِ علم اور ریاستی اداروں کے فکر و عمل کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوجائے۔ نیشنل بک فاونڈیشن جیسے ادارے ، کتاب و حکمت کو فروغ دینے والی تقریبات اور اس طرح کے میلے اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ میری خواہش ہے نیشنل بک فاونڈیشن کتاب اور فروغِ علم کے ساتھ ساتھ اہل علم اور صاحبانِ کتاب یعنی مصنفین کی بہتری اور خوشحالی کے لیے بھی کام کرے ۔ مجھے خوشی ہے یہ ادارہ مصنفین کا استحصال نہیں کرتا ۔یقین رکھتا ہوں کہ نیشنل بک فاونڈیشن متعلقہ صنعت کے تعاون سے ترقی یافتہ اور علم دوست معاشروں کی طرح وطن عزیز میں بھی یہ صحت مند علمی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
صدر ممنون