سکھیکی تھانے میں انصاف کیلئے جانیوالی شیربانو نام کی لڑکی خود اپنے بارے میں اسمِ بامسمیٰ ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئی اور ’’شیر‘‘ بن کر تھانے پہنچ گئی جہاں آوارہ کتوں کو اپنی ’’راجدھانی‘‘ میں آمد گوارہ نہ ہوئی اور حملہ آور ہو کر اسے زخمی کر دیا۔ ایس ایچ او تھانہ سکھیکی ریاض حسین حیدری کے بقول یہ پہلے سے موجود آوارہ کتوں کا ’’کُتا پن‘‘ ہے۔ شیربانو کے باپ حنیف نے اسکی ماں مقبول بی بی کو طلاق دے دی جو شیربانو اور دیگر تین بچوں کے ساتھ محلہ حاجی پورہ میں رہائش پذیر تھی۔ حنیف اور اس کے رشتہ داروں نے انہیں یہاں سے بھی بے دخل کر دیا اور جہیز کے اس سامان پر بھی قبضہ کر لیا جو اس نے ایک مل میں ملازمت کر کے خود جمع کیا تھا، وہ دو ماہ سے اس سامان کی بازیابی کیلئے تھانے کے چکر کاٹ رہی تھی وقوعہ کے روز تھانے کے باہر حنیف کے رشتہ دار آصف نے تکرار کے بعد اس پر تشدد کیا اور جب وہ جان بچانے کیلئے تھانے کے اندر بھاگی تو اس پر کتے چھوڑ دئیے۔
دیکھا جائے تو ایس ایچ او کا مؤقف بالکل درست ہے، پاکستان میں قانون کی کسی کتاب میں یہ درج نہیں ہے کہ آوارہ کتوں کا تھانے میں داخلہ قابل دست اندازی پولیس ہے اسی طرح نہ ہی تعزیرات پاکستان کی کسی دفعہ کے تحت آوارہ کتوں کی آوارہ گردی قابل سزا جرم ہے۔ قانون میں اس سقم سے فائدہ اٹھا کر ہی آوارہ کتے نہ صرف تھانے میں دندناتے پھرتے ہیں بلکہ اپنی کاٹ کھانے کی جبلت کی تسکین کا سامان بھی کرتے ہیں۔ کتے جتنی مرضی کی آوارہ گردی کر لیں اور ’’بدمعاشی‘‘ کی انتہا کہ تھانے کے اندر آ کر آوارہ گردی کریں ان کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا اور لگتا ہے انسانوں پر کتوں کی اسی برتری کو بابا بُلھے شاہ نے بھی محسوس کیا تھا تب تو وہ کہہ گئے ’’کُتے تیتھوں اُتے‘‘ اب پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کُتے نہیں بلکہ تھانے میں آوارہ گردی کرنیوالی کُتیا تھی جس سے ڈر کر بھاگنے والی شیربانو گر کر زخمی ہو گئی۔ غور کیا جائے تو اس میں ایک خاص رمز پوشیدہ نظر آئیگی یہ کُتیا جو کتوں کی صنفِ نازک ہے دو ماہ سے انسانوں کی صنفِ نازک کو تھانے کے چکر کاٹتے اور خوار ہوتے دیکھ رہی تھی وہ اسکی دادرسی کا سامان کرنے اسکے پیچھے دوڑی اور زخمی کر کے اسے ایسی خبر بنا دیا کہ وزیر اعلیٰ کو نوٹس لینا پڑ گیا ورنہ شیربانو کئی مہنیے اور خوار ہوتی رہتی۔ اس کُتیا کو انسانی ہمدردی کا میڈل دینے پر غور کیا جانا چاہئے۔ مسلم ٹائون پولیس نے 9 ماہ کے بچے کیخلاف اقدام قتل اور کارِ سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کر لیا۔ دادا اسے گود میں اٹھا کر سیشن کورٹ لے گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے اس ’’سنگین جرائم‘‘ کے مرتکب ملزم کی عبوری ضمانت منظور کر کے جس شفقت آمیز رویہ کا مظاہرہ کیا ہے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو انہیں ضرور شاباش دینی چاہئے ورنہ ملزم موسیٰ کو اپنے فیڈر سمیت کئی روز حوالات میں گزارنے پڑتے۔ اسی طرح اگر شاہدرہ کی عاصمہ نے اسکے اغوا اور زیادتی کے ملزموں کوگرفتار نہ ہونے پر احتجاجاً خود کو آگ کے شعلوں کی نذر کرنے کی کوشش کی تو یہ بھی ایسے واقعات میں سے ایک اور اضافہ ہے کوئی حیران کر دینے والی بات نہیں ہے۔ عاصمہ نے الزام لگایا کہ تفتیشی آفیسر پندرہ ہزار روپے لے کر اسکے مجرموں کو گرفتار نہیں کر رہا۔ یہ تفتیشی افسر خاصا حقیقت پسند لگتا ہے اس نے سوچا ہو گا کہ ملزموں کی گرفتاری سے عاصمہ کی لُٹی ہوئی عصمت نے کون سا واپس آ جانا ہے جبکہ پندرہ ہزار روپوں میں اس کے پندرہ کام چل سکتے ہیں، بچوں کے کپڑے بنائے جا سکتے ہیں، بیوی کو کوئی من پسند چیز لے کر دی جا سکتی ہے، بیوی بچوں کو تفریح کرائی جا سکتی ہے۔ ادھر مظفر گڑھ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کی ماں نظام مائی نے دُہائی دی ہے کہ اسے معاملے کو دبانے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے یہاں بھی معاملہ حقیقت پسندی کا لگتا ہے۔ جب مظلوم لڑکی خود بھی دفن ہو گئی تو پھر پولیس نے سوچا ہو گا کہ اب معاملے کو بھی دبا دیا جائے اور اگر ملزموں کو سزا مل بھی گئی تو اسے عالم برزخ میں بھلا کیا پتہ چلے گا، وہ زندہ سلامت رہتی تو ضرور کوئی کتا یا کتیا شیربانو کی طرح اعلیٰ حکام کی توجہ اس کی جانب بھی ضرور مبذول کراتی مگر وہ بہت بیوقوف تھی خودسوزی کی بجائے تھانوں میں آزادانہ نقل و حرکت رکھنے والے کسی کتے یا کتیا سے خود کو کٹوا لیتی اور چشم زدن میں وہ اعلیٰ حکام کی وہ توجہ حاصل کر لیتی جس کیلئے وہ خوار ہوتی پھر رہی تھی۔ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں آوارہ کتے انسانوں کی دستگیری کا سامان کر رہے ہیں۔ بے شک ’’کُتے تینتوں اُتے‘‘ ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024