سارہ شفیق sarashafiq2@hotmail.com...........
آئینی اصلاحات کمیٹی کے حوالہ سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماء میاں نواز شریف کی ایک پریس کانفرنس کو ’’یوٹرن‘‘ کا نام دیکر قومی سیاست میں ایک زلزلہ کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے۔ میاں صاحب کے جائز تحفظات پر غوروفکر کرنے کے بجائے تمام توپوں کا رخ مسلم لیگ (ن) کیطرف کر دیا گیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ردعمل تو ایک قدرتی امر تھا کیونکہ پیپلزپارٹی نے انہیں پختونخواہ کے نام پر مکمل سپورٹ کا یقین دلایا ہوا تھا اور پچھلے دو سالوں کے دوران حکمران جماعت کے چھوٹے بڑے تمام رہنما مختلف تقریبات میں صوبہ سرحد کو پختونخواہ کے نام سے پکارتے رہے ہیں۔ جناب آصف علی زرداری صدارت کے عہدہ جلیلہ پر براجمان ہونے اور آئین پاکستان کے محافظ ہونے کے دعوے کے باوجود بھی صوبہ سرحد کو بارہا اپنی تقاریر میں ایک ایسے نام سے پکارتے رہے ہیں جو ابھی تک متنازعہ ہے اور جس کی وجہ سے آج پورے ملک میں ہیجان برپا ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی میاں صاحب کے تحفظات پر سوچنے کی بجائے الزام تراشیوں کا سہارا لیکر مرکزی حکومت میں شمولیت کا حق نمک ادا کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کا طریقہ واردات آج تک مسلم لیگ کے رہنمائوں کی سمجھ میں نہیں آ سکا جس کی وجہ سے وہ ہر مرتبہ دیوار سے لگے نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی پیپلزپارٹی کے چند شکروں (Halks)نے آگے بڑھ کر فرنٹ سے حملہ کیا۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر مسٹر نثار کھوڑو نے بہت سخت زبان استعمال جبکہ مسٹر نبیل گبول نے رائیونڈ کو پاکستان کا دارالخلافہ بنانے کی بات کر کے اس نفرت کا اظہار کیا جو ان کے دل کی گہرائیوں میں موجزن ہے۔ جناب کائرہ اور فوزیہ وہاب نے خلاف معمول درمیانی راستہ اختیار کیا لیکن آزاد عدلیہ کیخلاف اپنی نفرت کو نہ چھپا سکے اور یہاں تک کہہ دیا اہم معاملات پر فیصلہ اختیار عدلیہ کو نہیں دیا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کا بیان یوٹرن ہے؟ سیاسی تجزیہ نگار حضرات کچھ ٹیلی ویژن اینکرز اور میاں صاحبان کے ازلی دشمنوں نے انکے بیان کو ایک سوچی سمجھی سازش بنا ڈالا ہے۔ ایوان صدر کی غلام گردشوں کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں اس ناقابل فہم بیان پر غوروفکر ہو رہا ہے اور چاروں طرف سے اٹھنے والی آوازوں نے مسلم لیگ (ن) کو دفاعی پوزیشن میں ڈال کر میاں نواز شریف کو اپنے بیان کی وضاحت کیلئے ایک اور پریس کانفرنس کے انعقاد پر مجبور کر دیا ہے۔ آئینی اصلاحات کمیٹی کے کسی متوقع فیصلہ سے اختلاف کا حق ہر سیاسی جماعت کو حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے کونسا جرم کر دیا کہ صوبہ سرحد کے نام اور مستقبل میں عدلیہ کے ججز کے تقرر کے طریقہ کار پر اعتراض کر دیا؟ پچھلے آٹھ نو ماہ سے مسلم لیگ کے نمائندوں جناب اسحاق ڈار اور احسن اقبال کا مکمل تعاون آئینی کمیٹی کو حاصل رہا ہے کیونکہ سترہویں ترمیم کے خاتمہ کی سب سے بڑی دعویدار مسلم لیگ (ن) ہی تھی۔ یہ الگ بات کہ پیپلزپارٹی کے ’’افلاطونوں‘‘ نے سترہویں ترمیم کے خاتمہ کو بہت سے متنازعہ معاملات کے ساتھ بریکٹ کر کے ایوان صدر کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ بنائے رکھا۔ جن دو انتہائی اہم معاملات پر میاں نواز شریف نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ انکے پیچھے ایک پوری تاریخ سازشوں‘ نفرتوں اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے سلسلہ میں پیپلزپارٹی کا سابقہ ریکارڈ بہت سے کالے دھبوں سے عبارت ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں پارٹی کے ایسے جیالوں کو ہائیکورٹ کا جج بنا دیا گیا تھا جو میرٹ کی پیشانی پر ایک سیاہ نشان تھے۔ تاریخ نے انگڑائی لی تو ان جیالے ججز کو بے عزت ہو کر عدالتوں کی کرسیاں چھوڑنی پڑیں۔ ان ججز میں دو جیالوں کا تعلق میرے اپنے شہر سے تھا‘ ایک حضرت کے اوپر لیاقت باغ قتل عام کا مقدمہ موجود تھا اور وہ ہائی کورٹ کا جج ہوتے ہوئے بھی راولپنڈی کے سیشن جج کی عدالت میں پیشیاں بھگتنے پر مجبور تھے۔ دوسرے حضرت نے کرپشن کے سلسلہ میں اس قدر نام پیدا کیا کہ وہ ایک گالی بن کر رہ گئے۔
جہاں تک صوبہ سرحد کے نئے نام کا تعلق ہے اس کیلئے صرف صوبائی قانون ساز اسمبلی کا ریزولیوشن کافی نہیں۔ صوبائی اسمبلی میں عدد برتری کسی بھی جماعت کی ہو سکتی ہے۔ کل کلاں مولانا فضل الرحمن یا قاضی حسین احمد کی جماعتوں کو اقتدار حاصل ہو جائے اور وہ ایک قرارداد کے ذریعے صوبہ کا نام پختون اشرافیہ یا منصورہ صوبہ تجویز کریں تو کیا اس پر عملدرآمد کیا جا سکے گا؟ صوبہ سرحد پاکستان کی فیڈریشن کی ایک انتہائی اہم اکائی ہے۔ اس اکائی میں صرف پختون ہی آباد نہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ’’ہزارے‘‘ اور ’’ہندکو‘‘ بولنے والے موجود ہیں۔ شمال میں ناران اور درہ بابوسر سے لیکر حسن ابدال اور اٹک کی سرحد تک کے تمام پاکستانی پختونخواہ نام کے حق میں نہیں ہیں۔ یہی صورتحال بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خاں کی ہے۔ مسلم لیگ ن کا صوبہ سرحد کا چیپٹر اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف کو اپنی سیاسی جماعت کے اس حصہ کو مطمئن کرنے کیلئے تحفظات کا اظہار کرنا پڑا۔
پختونخواہ نام کی ایک نسبت پاکستان کی قومی تاریخ سے بھی ہے جسے یکسر فراموش نہیں کیا جا سکتا‘ جس نسل سے میرا تعلق ہے اسے تو علم ہی نہیں کہ 1947ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے صاحب کردار پختون ساتھیوں سردار عبدالرب نشتر اور صاحبزادہ قیوم خان کو اس صوبہ کو پاکستان کا حصہ بنانے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ انگریز گورنر مہاتما گاندھی اور کانگرس کے رہنمائوں کی سازش نے پورے صوبہ کو آگ کے الائو میں تبدیل کر دیا تھا۔ 1947ء کے ریفرنڈم میں صوبہ سرحد کے غیور عوام نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ دیکر سازشوں کا خاتمہ کیا تھا۔ ریفرنڈم میں عوامی فیصلہ کے بعد بھی خان عبدالغفار خان جنہیں سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا انہوں نے پختونستان بنانے کی جدوجہد جاری رکھی تھی اور بعد میں دو عشروں تک یہ صوبہ عدم استحکام کا شکار رہا تھا۔ کسی کی دل آزاری میرا مقصد نہیں لیکن ریکارڈ کی درستگی اور موجودہ نسل کی آگاہی کیلئے یہ ذکر کرنا بے محل نہیں کہ خان عبدالغفار خان (باچا خان) عرف سرحدی گاندھی کی پاکستان سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا اور انہیں افغانستان میں قبر کیلئے دوگز زمین کا اہتمام کرنا پڑا۔ باچا خان مرحوم کے قابل فخر بیٹے عبدالولی خان کے بارے میں بھی تاریخ کی کتابوں میں بہت سا مواد موجود ہے لیکن مجموعی طور پر میرا تاثر انکے بارے میں بے حد مثبت ہے وہ آج زندہ ہوتے تو صوبہ کے نام پر کچھ لوگ سیاست نہ کر سکتے اور نفرتوں کی فصلیں کاشت نہ کر سکتے۔ مجھے افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باچا خان کا پوتا نہ اپنے صوبہ سے مخلص ہے اور نہ پاکستان سے۔ وہ تو کھلے بندوں امریکن پینٹاگون کا بندہ ہے اور انکی ہدایات پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ پختونوں کے ایک فرقہ کی جو نسل کشی امریکن ڈرونز یا پاکستانی افواج کی کارروائیوں سے کی جا رہی ہے وہ اور اسکی جماعت اس میں برابر کی شامل ہیں۔
پچھلے دنوں ٹی وی کے کسی چینل پر نیشنل عوامی پارٹی کی ایک تقریب میں اس جماعت کے انفارمیشن منسٹر میاں افتخار حسین فرما رہے تھے کہ پختونخواہ کا ملی ترانہ ابھی تیار نہیں ہوا۔ غالباً ایسے جذباتی رہنمائوں کی جلد بازی نے کام خراب کر دیا۔ ملی ترانے تو ملکوں کے ہوتے ہیں صوبوں کے ہرگز نہیں۔ پنجاب اور سندھ کا تو کوئی ملی ترانہ میرے علم میں نہیں۔ مجھ سمیت پاکستان کے لاکھوں کروڑوں افراد کی یہ خواہش ہے کہ سترہویں ترمیم کا خاتمہ باالخیر ہو۔ صوبہ سرحد کا نام آپس کی مشاورت سے طے پا کر آئینی اصلاحات کمیٹی کا مکمل پیکج دونوں ایوانوں سے منور ہو لیکن لاکھوں کروڑوں افراد کو یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ججز کی تعیناتی بھی تحصیلداروں کی طرح کرنے کی خواہشمند ہیں‘ اسی لئے اس مسئلہ کو چھیڑا گیا ہے۔ آج کی سربلند آزاد عدلیہ تو سیاسی جماعتوں کو ہضم ہی نہیں ہو رہی۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد اور رہنمائوں کا معذرت خواہانہ رویہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ میاں صاحب کے تحفظات کا قومی منظر نامہ کے حوالے سے جائزہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں نوائے وقت کی پرانی فائلوں اور تاریخ کی کئی کتابوں سے مدد لی گئی ہے‘فرداً فرداً ممکن نہیں میں سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں)
پاکستان زندہ باد
آئینی اصلاحات کمیٹی کے حوالہ سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماء میاں نواز شریف کی ایک پریس کانفرنس کو ’’یوٹرن‘‘ کا نام دیکر قومی سیاست میں ایک زلزلہ کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے۔ میاں صاحب کے جائز تحفظات پر غوروفکر کرنے کے بجائے تمام توپوں کا رخ مسلم لیگ (ن) کیطرف کر دیا گیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ردعمل تو ایک قدرتی امر تھا کیونکہ پیپلزپارٹی نے انہیں پختونخواہ کے نام پر مکمل سپورٹ کا یقین دلایا ہوا تھا اور پچھلے دو سالوں کے دوران حکمران جماعت کے چھوٹے بڑے تمام رہنما مختلف تقریبات میں صوبہ سرحد کو پختونخواہ کے نام سے پکارتے رہے ہیں۔ جناب آصف علی زرداری صدارت کے عہدہ جلیلہ پر براجمان ہونے اور آئین پاکستان کے محافظ ہونے کے دعوے کے باوجود بھی صوبہ سرحد کو بارہا اپنی تقاریر میں ایک ایسے نام سے پکارتے رہے ہیں جو ابھی تک متنازعہ ہے اور جس کی وجہ سے آج پورے ملک میں ہیجان برپا ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی میاں صاحب کے تحفظات پر سوچنے کی بجائے الزام تراشیوں کا سہارا لیکر مرکزی حکومت میں شمولیت کا حق نمک ادا کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کا طریقہ واردات آج تک مسلم لیگ کے رہنمائوں کی سمجھ میں نہیں آ سکا جس کی وجہ سے وہ ہر مرتبہ دیوار سے لگے نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی پیپلزپارٹی کے چند شکروں (Halks)نے آگے بڑھ کر فرنٹ سے حملہ کیا۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر مسٹر نثار کھوڑو نے بہت سخت زبان استعمال جبکہ مسٹر نبیل گبول نے رائیونڈ کو پاکستان کا دارالخلافہ بنانے کی بات کر کے اس نفرت کا اظہار کیا جو ان کے دل کی گہرائیوں میں موجزن ہے۔ جناب کائرہ اور فوزیہ وہاب نے خلاف معمول درمیانی راستہ اختیار کیا لیکن آزاد عدلیہ کیخلاف اپنی نفرت کو نہ چھپا سکے اور یہاں تک کہہ دیا اہم معاملات پر فیصلہ اختیار عدلیہ کو نہیں دیا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کا بیان یوٹرن ہے؟ سیاسی تجزیہ نگار حضرات کچھ ٹیلی ویژن اینکرز اور میاں صاحبان کے ازلی دشمنوں نے انکے بیان کو ایک سوچی سمجھی سازش بنا ڈالا ہے۔ ایوان صدر کی غلام گردشوں کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں اس ناقابل فہم بیان پر غوروفکر ہو رہا ہے اور چاروں طرف سے اٹھنے والی آوازوں نے مسلم لیگ (ن) کو دفاعی پوزیشن میں ڈال کر میاں نواز شریف کو اپنے بیان کی وضاحت کیلئے ایک اور پریس کانفرنس کے انعقاد پر مجبور کر دیا ہے۔ آئینی اصلاحات کمیٹی کے کسی متوقع فیصلہ سے اختلاف کا حق ہر سیاسی جماعت کو حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے کونسا جرم کر دیا کہ صوبہ سرحد کے نام اور مستقبل میں عدلیہ کے ججز کے تقرر کے طریقہ کار پر اعتراض کر دیا؟ پچھلے آٹھ نو ماہ سے مسلم لیگ کے نمائندوں جناب اسحاق ڈار اور احسن اقبال کا مکمل تعاون آئینی کمیٹی کو حاصل رہا ہے کیونکہ سترہویں ترمیم کے خاتمہ کی سب سے بڑی دعویدار مسلم لیگ (ن) ہی تھی۔ یہ الگ بات کہ پیپلزپارٹی کے ’’افلاطونوں‘‘ نے سترہویں ترمیم کے خاتمہ کو بہت سے متنازعہ معاملات کے ساتھ بریکٹ کر کے ایوان صدر کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ بنائے رکھا۔ جن دو انتہائی اہم معاملات پر میاں نواز شریف نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ انکے پیچھے ایک پوری تاریخ سازشوں‘ نفرتوں اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے سلسلہ میں پیپلزپارٹی کا سابقہ ریکارڈ بہت سے کالے دھبوں سے عبارت ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں پارٹی کے ایسے جیالوں کو ہائیکورٹ کا جج بنا دیا گیا تھا جو میرٹ کی پیشانی پر ایک سیاہ نشان تھے۔ تاریخ نے انگڑائی لی تو ان جیالے ججز کو بے عزت ہو کر عدالتوں کی کرسیاں چھوڑنی پڑیں۔ ان ججز میں دو جیالوں کا تعلق میرے اپنے شہر سے تھا‘ ایک حضرت کے اوپر لیاقت باغ قتل عام کا مقدمہ موجود تھا اور وہ ہائی کورٹ کا جج ہوتے ہوئے بھی راولپنڈی کے سیشن جج کی عدالت میں پیشیاں بھگتنے پر مجبور تھے۔ دوسرے حضرت نے کرپشن کے سلسلہ میں اس قدر نام پیدا کیا کہ وہ ایک گالی بن کر رہ گئے۔
جہاں تک صوبہ سرحد کے نئے نام کا تعلق ہے اس کیلئے صرف صوبائی قانون ساز اسمبلی کا ریزولیوشن کافی نہیں۔ صوبائی اسمبلی میں عدد برتری کسی بھی جماعت کی ہو سکتی ہے۔ کل کلاں مولانا فضل الرحمن یا قاضی حسین احمد کی جماعتوں کو اقتدار حاصل ہو جائے اور وہ ایک قرارداد کے ذریعے صوبہ کا نام پختون اشرافیہ یا منصورہ صوبہ تجویز کریں تو کیا اس پر عملدرآمد کیا جا سکے گا؟ صوبہ سرحد پاکستان کی فیڈریشن کی ایک انتہائی اہم اکائی ہے۔ اس اکائی میں صرف پختون ہی آباد نہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ’’ہزارے‘‘ اور ’’ہندکو‘‘ بولنے والے موجود ہیں۔ شمال میں ناران اور درہ بابوسر سے لیکر حسن ابدال اور اٹک کی سرحد تک کے تمام پاکستانی پختونخواہ نام کے حق میں نہیں ہیں۔ یہی صورتحال بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خاں کی ہے۔ مسلم لیگ ن کا صوبہ سرحد کا چیپٹر اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف کو اپنی سیاسی جماعت کے اس حصہ کو مطمئن کرنے کیلئے تحفظات کا اظہار کرنا پڑا۔
پختونخواہ نام کی ایک نسبت پاکستان کی قومی تاریخ سے بھی ہے جسے یکسر فراموش نہیں کیا جا سکتا‘ جس نسل سے میرا تعلق ہے اسے تو علم ہی نہیں کہ 1947ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے صاحب کردار پختون ساتھیوں سردار عبدالرب نشتر اور صاحبزادہ قیوم خان کو اس صوبہ کو پاکستان کا حصہ بنانے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ انگریز گورنر مہاتما گاندھی اور کانگرس کے رہنمائوں کی سازش نے پورے صوبہ کو آگ کے الائو میں تبدیل کر دیا تھا۔ 1947ء کے ریفرنڈم میں صوبہ سرحد کے غیور عوام نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ دیکر سازشوں کا خاتمہ کیا تھا۔ ریفرنڈم میں عوامی فیصلہ کے بعد بھی خان عبدالغفار خان جنہیں سرحدی گاندھی کہا جاتا تھا انہوں نے پختونستان بنانے کی جدوجہد جاری رکھی تھی اور بعد میں دو عشروں تک یہ صوبہ عدم استحکام کا شکار رہا تھا۔ کسی کی دل آزاری میرا مقصد نہیں لیکن ریکارڈ کی درستگی اور موجودہ نسل کی آگاہی کیلئے یہ ذکر کرنا بے محل نہیں کہ خان عبدالغفار خان (باچا خان) عرف سرحدی گاندھی کی پاکستان سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا اور انہیں افغانستان میں قبر کیلئے دوگز زمین کا اہتمام کرنا پڑا۔ باچا خان مرحوم کے قابل فخر بیٹے عبدالولی خان کے بارے میں بھی تاریخ کی کتابوں میں بہت سا مواد موجود ہے لیکن مجموعی طور پر میرا تاثر انکے بارے میں بے حد مثبت ہے وہ آج زندہ ہوتے تو صوبہ کے نام پر کچھ لوگ سیاست نہ کر سکتے اور نفرتوں کی فصلیں کاشت نہ کر سکتے۔ مجھے افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باچا خان کا پوتا نہ اپنے صوبہ سے مخلص ہے اور نہ پاکستان سے۔ وہ تو کھلے بندوں امریکن پینٹاگون کا بندہ ہے اور انکی ہدایات پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ پختونوں کے ایک فرقہ کی جو نسل کشی امریکن ڈرونز یا پاکستانی افواج کی کارروائیوں سے کی جا رہی ہے وہ اور اسکی جماعت اس میں برابر کی شامل ہیں۔
پچھلے دنوں ٹی وی کے کسی چینل پر نیشنل عوامی پارٹی کی ایک تقریب میں اس جماعت کے انفارمیشن منسٹر میاں افتخار حسین فرما رہے تھے کہ پختونخواہ کا ملی ترانہ ابھی تیار نہیں ہوا۔ غالباً ایسے جذباتی رہنمائوں کی جلد بازی نے کام خراب کر دیا۔ ملی ترانے تو ملکوں کے ہوتے ہیں صوبوں کے ہرگز نہیں۔ پنجاب اور سندھ کا تو کوئی ملی ترانہ میرے علم میں نہیں۔ مجھ سمیت پاکستان کے لاکھوں کروڑوں افراد کی یہ خواہش ہے کہ سترہویں ترمیم کا خاتمہ باالخیر ہو۔ صوبہ سرحد کا نام آپس کی مشاورت سے طے پا کر آئینی اصلاحات کمیٹی کا مکمل پیکج دونوں ایوانوں سے منور ہو لیکن لاکھوں کروڑوں افراد کو یہ بھی دکھ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ججز کی تعیناتی بھی تحصیلداروں کی طرح کرنے کی خواہشمند ہیں‘ اسی لئے اس مسئلہ کو چھیڑا گیا ہے۔ آج کی سربلند آزاد عدلیہ تو سیاسی جماعتوں کو ہضم ہی نہیں ہو رہی۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد اور رہنمائوں کا معذرت خواہانہ رویہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ میاں صاحب کے تحفظات کا قومی منظر نامہ کے حوالے سے جائزہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں نوائے وقت کی پرانی فائلوں اور تاریخ کی کئی کتابوں سے مدد لی گئی ہے‘فرداً فرداً ممکن نہیں میں سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں)
پاکستان زندہ باد