پاک سعودیہ تعلقات
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سعودی عرب کی ناراضگی کی وجہ سے انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے۔تفصیل بتاتے ہوئے کہ کہ نواز شریف کے دور حکومت میں یمن کی جانب سے سعودی حکومت پر جارحیت کی وجہ سے پاکستان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنی فوجیں یمن کی سرکوبی کیلئے بھیجیں لیکن پاکستان نے یمن میں فوج بھیجنے سے انکار کردیا جو دراصل ان کی حکومت کی برطرفی کا سبب بن گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اوائل میں سعودی اور پاکستانی حکومت کے تعلقات قابل رشک تھے وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب اور سعودی پرنس کے پاکستانی دورہ کے موقع پر تعلقات کی وہ جھلک نظرآئی کہ اپوزیشن رہنمائوں کو بھی وزیر اعظم پاکستان پرنس کی گاڑی چلانے پر سیخ پا نظرآئے ۔ دوسری طرف شہزادہ محمد بن سلیمان نے جب اپنے خطاب میں کہا کہ سعودی عرب میں پاکستان کا اُنہیں سفیر سمجھا جائے اور وزیر اعظم کی جانب سے سعودی عرب میں گرفتار پاکستانیوں کی رھائی کا مسئلہ اٹھایا تو فوری طورپر ہزاروں گرفتار پاکستانیوں کو رھا کردیا تھا ۔ اس وقت سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کا پرچم بلند یوں پر تھا اور شاید پھر اس دو طرفہ دوستی کو نظر لگ گئی ۔ اس موقع پر اربو ں ڈالر او رپٹرول ، ڈیزل کی ادھار پر فراہمی سے ملکی معیشت کو سنبھالا ملا ۔لیکن ملائشیا میں ایک کانفرنس کا انعقاد دونوں ملکوں کے درمیان وجہ تنازعہ بن گیا ۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کرانے والا ملک پاکستان اس کانفرنس میں شریک نہ ہوا ،تو ملائشیا اور ترکی بھی ناراض نظر آئے ۔ یہاںسے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سرد مہری کا آغاز ہوا۔ معاملات اس وقت مزید بگڑے جب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور خطرہ پیدا ہوگیا کہ اب سعودی عرب میں ایسا کرنے جارہاہے ۔ ایک بارپھر رابطے تیز ہوئے اور بالآخر پاکستانی آرمی چیف کو خود جانا پڑا اور باہمی گفتگو و شنید سے اختلاف عارضی طور پر کمزور پڑگئے اور سعودی عر ب کی جانب سے اربوں ڈالر جو پاکستانی اسٹیٹ بنک میں رکھوائے گئے تھے اور ادھار پرتیل کی فراہمی اوربندش کی تردید بھی جاری ہوئی ۔ اندر کی باتیں تو وہی جانتے ہیں کہ ڈالر واپس لیے گئے یا نہیں ؟ تیل کی بندش ہوئی یا نہیں؟ باہمی تعلقات میں وہ تیزی تو نظر نہیں آرہی تاہم سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تاہم ریال اور درہم کی وہ بارشیں کسی اور چھت پر برسنے والی ہیں ۔
پاکستان خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور سعودی عرب کو بھی قائل کررہا ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ مل کر سی پیک کی برکتوں سے مستفید ہو لیکن سعودی عرب اپنی سابقہ پالیسیوں اور اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ زیادہ خوش ہے ۔ سعودی عرب دیگر عرب ممالک کی تباہی و بربادی سے کچھ زیادہ ہی پریشان ہے۔ بیرونی و اندرونی خلفشار سے نبردآزما’’ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ کے مصداق کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے ہچکچا رہاہے ۔ اندرونی چیلنجز سے بھی نبرد آزما ہے سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے لیکن عالمی طاقتیں رو ز بروز ترقی کی منازل طے کررہی ہے دنیا جہاں پٹرول ، ڈیزل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے پروگرام پر تیزی سے عمل پیرا ہے اورمتبادل توانائی کے ذرائع متعارف کرارہی ہے اس سے تیل پیدا کرنے والے ممالک سخت پریشان ہیں اور وہ بھی اپنے ملکوں میں اصلاحات لا کر اپنی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرسکے۔ تمام شعبہ جات اپنے ملک کے نوجوانوں کو سونپنے کے پروگراموں پر عمل پیرا ہیں ۔ ملازمتوں ، مارکٹیوں ٹرانسپورٹ سسٹم میں مقامی لوگوں کو اہمیت دی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہونے کی دعائیں کررہے ہیں ۔ پاک سعودی تعلقات ہر لحاظ سے اہم ہیں برادرزاسلامی ملک اور وہ ملک جہاں ہمار خانہ کعبہ اور جہاں شافع محمد ؐ روز جزا موجود ہوں ان سے بہتر تعلق کے لیئے ہر وقت دعاگو رہتا ہے پاکستان کے لاکھوں ڈاکٹر ، انجینئر ، مزدو ر اور دیگر پیشوں سے وابستہ لوگ پریشان رہتے ہیں اور اگر انہیں واپس کردیا گیا تو کئی دھاتوں سے مقیم لوگ جو لاکھوں روپے اور ریا ل کمار ہے ہیں اور پاکستان میں اپنے بچوں کی بہترتعلیم کے اور اخراجات کی ضمانت ہیں ان کا کیا بنے گا ۔ لاکھوں لوگو ں کی واپسی کا مقصد کروڑوں پاکستانیوں کیلئے مشکلا ت پیدا کرنا ہے ۔ پاکستانی معیشت پر بوجھ بڑھے گا اور زر مبادلہ جو پاکستانی حکومت کیلئے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس سے نہ صرف پاکستا نیوں بلکہ بطور ملک پاکستان کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ۔سعودی عرب واپسی کے ممکنہ فیصلے سے پریشان ایک عزیز نے تو اپنی بات اس شعر پر ہی ختم کردی اور کہا کہ :
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا