وفاقی اردو یونیورسٹی میں 18سال میں 12وائس چانسلر تبدیل
کراچی (اسٹاف رپورٹر) 18 اگست ۲۰۲۰ء کو جامعہ اردوکے سینیٹ کے اجلاس میں ایک اور وائس چانسلر کو تبدیل کر دیا گیا۔ مختصر عرصہ میں۱۲ وائس چانسلرز کی تبدیلی جامعہ اردو کی سینیٹ پر سوالیہ نشان ہے اور ماڈل یو نیورسٹی آرڈینینس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جامعہ اردو کی سینیٹ کی کارکردگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سینیٹ کے اراکین نے جامعہ اردو کے تعلیمی ،تحقیقی، تدریسی اور مالی امور پر بہت ہی کم توجہ دی ہے۔جس کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے جامعہ اردو نے تحقیق پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیااور ہمیشہ معمولی رقم HECسے تحقیق کے لئے ڈیمانڈ کی گئی۔اساتذہ کو تحقیق کے لئے دیئے جانے فنڈز کئی سالوں سے بند ہیں۔ اراکین سینیٹ صرف اس وائس چانسلر سے خوش رہتے ہیں جو ان کی خوش آمد میں لگا رہے۔ اس کی واضح مثال سابقہ وائس چانسلر سلیمان ڈی محمد کی ہے جن کی پی ایچ ڈی کی سند کو جامعہ کراچی کی سینڈیکیٹ نے Plagiarismثابت ہونے پر منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جامعہ اردو کی سینیٹ نے سلیمان ڈی محمد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ اس وقت بھی یہ کیس سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جامعہ اردو کی سینیٹ کے ڈپٹی چیئر سابقہ بیورو کریٹ جاوید اشرف پچھلے سات سال سے اس عہدہ پر براجمان ہیں۔ان کا تقرر سابقہ صدر مملکت نے دسمبر ۲۰۱۳ء میں کیا۔ انہوں نے ایک سال بعد جامعہ اردو کے پہلے اجلاس میں شرکت کی اور پہلے ہی اجلاس میں ایک مستقل وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کو فارغ کردیا۔