قوم بن کے جینے میں ہی عزت ہے
قوموں کی تارےخ مےں امتحانات آتے رہتے ہےں۔ہر قوم اپنی بقا کے لےے اپنی ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔مجھے آج ان دنوں کو ےاد کرنا تھا جب طاقت کے نشے مےں دھت بھارتی سانڈ پاکستان پہ قبضہ کا خواب آنکھوں مےں سجائے لاہور پہ حملہ آور ہوئے تھے ۔
جب سے دنےا مےں جدےدےت آئی ہے قوموں کی آپس میں لڑائےاں کم ہورہی ہےں ۔لےکن پچھلی کئی دہائےوں سے اہل ےورپ نے آپس مےں تعلقات بہتر کر کے دفاعی اخراجات کم کر تے ہوئے عوام کی بہتری پہ پےسہ خرچ کرنا شروع کےا ہوا ہے ۔وہ ملک اسی لےے آج ترقی ےافتہ ہےں کہ ان کا بجٹ عوامی فلاح و بہبود کے لےے مختص کےا جاتا ہے ۔جبکہ بھارتی شر انگےزی کی وجہ سے ہمےں پہلے دن سے ہی اپنے لےے جدےد سے جدےد ہتھےاروں کی ضرورت رہی ہے ۔
6ستمبر1965کو گذرے کئی سال ہو گئے لےکن جب تک ےہ دنےا باقی ہے ان 17دنوں کی یاد میں بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا ۔دشمن کے مقابلے کم وسائل ہونے کے باوجود وطن کے بہادر جوانوں نے وہ تارےخ رقم کی کہ دنےا اسے ہمےشہ ےاد رکھے گی ۔ےہ حقےقت ہے کہ ہماری فوج نے بھارت کے بہت سے حصوں پر قبضہ کر لےا تھا ۔اپنی ہار کو دےکھتے ہوئے بھارت نے مذاکرات کا رستہ اختےار کےا اور پاکستان کو بھارتی علاقوں کو خالی کرنا پڑا۔ لےکن حقیقت یہ ہے کہ اُن سترہ دنوں پاکستانی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی اور پورا ملک ایک جسد واحد کی شکل اختیار کر گیا تھا کیا قد امت پسند یا انقلابی دانشور کیا شہری کیا دیہاتی کیا کارخانہ دار کیا مزدور کیا جاگیر دار کیا مزارعے سب ہی ایک ہی جسم کے مختلف حصے معلوم ہوتے تھے تاریخی لحاظ سے 1965کا سال بڑا متنازع ہے اسی سال صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو متنازع شکست دی تھی اور یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کی مخالف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ ایوب خان کی مخالفت کر رہی تھیںلیکن جب پاکستان پر ہندوستان کی طرف سے جنگ مسلط کر دی گئی تو تمام جماعتیں اپنے اپنے اختلافات بھلا کر ایوب خان کی پشت پر کھڑی تھیں وہ وہی مولانا ابو لاعلی مودودی اور عبد الولی خان جو ایوب خان کے سب سے بڑے مخالف تھے ایوب خان کے حق میں ریڈیو پاکستان پر تقاریر کر رہے تھے ۔جنگ مےں بھارت کو شکست ہوئی ۔ٹےبل ٹاک پہ بھارت کو فتح ملی تو بھارتےوں نے سےاست سے پاکستانےوں کو کمزور کرنا شروع کےا ۔آپسی اختلافات کو ہوا دےنے کے لےے ہمارے سےاست دانوں کو استعمال کےا ۔بھارت جو مقصد بارڈر پر پورا نہ کر سکا وہ اس نے پاکستان کے اندر سے وار کر کے پورا کر لےا ۔اور 1965کے صرف 6سال بعدبھارتی کوششوں سے پاکستان دو ٹکڑوں مےں بٹ گےا۔
پاکستانی قوم آج بھی 1965والی ہی قوم ہے۔اگر کمزوری ہے تو سےاست دانوں مےں ہے ۔ہماری فوج دنےا کی ناقابل شکست فوج ہے ۔اللہ کے ان شےرو ںکو کوئی باطل قوت کےسے ہرا سکتی ہے ۔بس ہمےں آپس مےں اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔
جو قوم سوئی تک اےجاد نہ کرنے کے طعنے برداشت کرتی ہے جب کچھ کرنے پر آتی ہے تو ایٹم بم ہی بنا لیتی ہے ۔آج دنےا کا بہترےن مےزائل سسٹم پاکستان کے پاس ہے ۔پاکستانی نوجوان بیرون ملک جا کر اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہےں اور ہر سال اربوں ڈالر ذر مبادلہ اپنے ملک بھجتے ہیں پاکستانی ڈاکٹرز کی صلاحیتوںکو دنےا مانتی ہیں پاکستان کا کسان موسموں کی سختیاں جھیل کر بھی پورے ملک کے لئے اتنا اناج اور دیگر اجناس پیدا کرتا ہے کہ اسے حکومتی بے توجہی کے باعث اپنی یہ اجناس سمیت سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑتا پے اور بعض اوقات وہ اپنے آلووں اور چاولوں کی بوریوں کو سڑکوں پر رہی پھینک دیتا ہے یہاں کے نوجوانوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے آج بھی یہ قوم وہی جذبہ دکھا سکتی ہے جس سے قومیں نمو پاتی اور تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں ضرورت صرف نیک نیت حکمرانوں اور بہترین قابل عمل نظام کی ہے بے شک ہم جمہوری دور میں داخل ہیں لیکن یہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری جمہوریت چند مخصوص حکمرانوں کی ذاتی خواہشوں کی تکمیل کا نام بن کر رہ گئی ہے لیکن اتنا پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں جس قوم اور جس فوج نے 1965میں اپنے سے کئی گنا بڑے ملک اور فوج کو ناکوں چنے چبوا ئے تھے چونڈہ کے محاظ پر ہمارے صرف ڈیڑھ سو ٹینک سواروں نے انڈیا کے ساڑھے چھ سو سے زائد ٹینکوں کوقبرستان کا رزق بنا دیا تھاوہ قوم وہ فوج اور وہ جذبے آج بھی زندہ ہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد اس جنگ کو ٹینکوں کی دوسری بڑی جنگ کہا گیا ہے جب ہمارے بہادر فوجیوں نے سینوں پر بم باندھ کر پاک و ہند کی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا ہم نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ ہندوستان نے جب لاہور پر حملہ کیا تھا اور بی بی سی نے ہندوستان کے لاہور پر قبضہ کی خبر نشر کر دی تھی تو اس وقت کے پاکستان میں امریکی سفیر بڑے جاہ و جلال سے صدر پاکستان ایوب خان سے ملے اور کہا کہ جناب صدر ہندوستان نے آپکی گردن دبوچ لی ہے جسکے جواب میں ایوب خان نے کہا تھا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کس نے کس کی گردن دبوچی ہے ۔ 27رمضان المبارک بروز جمعة الوداع کی بابرکت ساعتوں مےں بننے والا یہ ملک رہتی دنےا تک نہ صرف قائم رہے گا بلکہ ہمارے جب چاہےں گے جوان دنےا کا نقشہ بدل دےں گے۔بس ضرورت ہے جرات مند ٬نےک صفت اور باکردار حکمران ملنے کی ۔ہم نے اپنے آج کے نوجوان کو اقبال کا فلسفہ خودی سمجھانا ہے ۔کےونکہ آنے والے وقتوں مےں دنےا کے فےصلے پاکستان سے ہوا کرےں گے لےکن پہلے حضرت اقبال کی ہداےت پہ عمل کرنا ہوگا ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
٭....٭....٭