گیدڑ کی موت آئی تو مقتل کو چل پڑا

افواجِ وطن کا افضل ترین فریضہ اپنے وطن کا دفاع ہوتا ہے اور یہ فریضہ پاکستان کی افواج دنیا بھر کے تمام ممالک کی افواج سے زیادہ بہترین حکمت عملی اور جذبہ ایمانی کے ساتھ ادا کر رہی ہے۔ ہماری عسکری قوتیں چاہے فضائی،بحری اور بری ہوں ا±ن کے لیے اپنے ملک کی تمام حدود کی حفاظت اپنے وجود کی بقاسے زیادہ معتبر اور مقدم ہے۔ یہ بات روزِ اول کی طرح ہر ایک پر روشن ہے کہ ہم نے اپنا وطن پاکستان کتنی لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا۔ ان قربانیوں میں ہم نے صرف اپنی جانیں نہیں گنوائیں بلکہ اپنے اہل و عیال،بزرگ،مال و مویشی اور اپنے گھر بار سب کچھ ایسے قربان کر دیئے جیسے قربان کرنے کا حق تھا۔ ہر مسلمان اللہ کا سپاہی ہے۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیف اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا شاھین ہے۔ جب بھی ہمارے وطن پہ مشکل وقت آیا تو ہماری افواج اور عوام نے اپنے فوجی بھائیوں کی اس طرح مدد کی کہ بچوں نے اپنے جیب خرچ ،ملک کی ماں بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے زیور تک بیچ کر ملک کے خزانے میں جمع کروا دئیے اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جنگیں صرف فوجیں نہیں بلکہ قومیں جیتا کرتی ہیں۔ کچھ محاذ ایسے ہوتے ہیں جو زمینی و آسمانی آفات کی بنا پر قوم کو یکجا کرتے ہیں اور قومیں ا±ن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں جیسے سیلاب،زلزلے اور کوئی بڑا حادثہ۔ سب سے بڑا محاذ جنگی محاذ ہوتا ہے جس میں دشمن اپنے ناپاک عزائم لے کر بزدلوں کی طرح رات کی تاریکی میں بنابتائے ہمارے ملک پہ حملہ آور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ستمبر 1965میں بھارت جیسے ازلی دشمن نے بنا للکارے گیدڑوں کی طرح حملہ کر دیا مگر آفرین ہے ہماری افواج اور قوم پر کہ ناموافق بین الاقوامی حالات اور محدود وسائل کے باوجود جذبہ مسلمانی و ایمانی،جذبہ ح±ب± الوطنی اور جذبہ جہاد کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور لازوال جذبے کے تحت ہم نے ایک ہو کر ا±ن کو شکستِ فاش دی اور ا±ن کی فتح کا جھنڈا ذلت کی پستیوں میں گاڑھ دیا۔ ہمارے دفاعی فرزند ایک ہی نظریے کے تحت میدانِ جنگ میں ا±ترتے اور شہہ زوری سے لڑتے ہیں کہ اپنے دین اور قومی وجود کو کسی بھی طور باطل قوتوں سے مغلوب نہیں ہونے دینا۔ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود مدینہ شریف کے دفاع کے لیے راتوں کو پہرہ دیا اور اپنے صحابہ کرام کو جو وہاں حفاظت کے لیے مامور تھے ا±نہیں خفیہ ہدایات دیں۔
مملکتِ اسلامیہ کو استحصالی قوتیں برداشت کہاں کرتی ہیں لیکن ا±ن کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان کی جنت تلواروں کے سائے تلے ہے،ویسے بھی اللہ کے راستے میں لڑنے کو مسلمان کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔ 6ستمبر 1965 کو ہندوستانی کمانڈر انچیف جے۔این چوہدری نے پاکستان پر حملے کی نادانی تو کر لی مگر پھر ا±سے ب±ری طرح بھ±گتنا پڑا۔ وہ ہمارے وسائل سے تین گ±نا زیادہ ہتھیاروں کے ساتھ لیس ہو کر آئے تھے اور جم خانہ لاہور میں اپنی فتح کا جشن شراب کے نشے میں د±ھت ہو کر منانا چاہتے تھے مگر ہماری پاک زمین کا ایک ذرہ بھی ا±ن کے نصیب میں نہ ہوا۔ سیالکوٹ میں جسور کے علاقے پہ ا±نہوں نے قبضہ کرنے کوشش کی مگر ہماری افواج نے جب قدم آگے بڑھائے تووہ جوابی کارروائی کیے بنا ہی سر پر پاﺅں رکھ کے سرپٹ ہوئے۔ ہماری آزمائش کے اس دن کو آج پچاس سال گزر گئے مگر ہمارے ملک اور مذہب کا عزت و وقار آج بھی قائم ہے۔ جس ملک کی مائیں وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی گود خالی ہونے پر شکرانے کے نفل ادا کرتی ہیں ا±س وطن کا ہر فرد بوڑھا اور بچہ اللہ کی تلوار بنتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے ہماری قوم میں مایوسی اور بزدلی کا شائبہ تک بھی نہ تھا، پوری قوم جذبہ ح±ب الوطنی، حوصلہ مندی اور نئی ا±منگوں کے جذبوں کے ساتھ متحرک تھی، ملک کا بچہ بچہ قربانی دینے کو یوں تیار تھا جیسے ماں کی گود میں سونے کے لیے تیار ہو رہا ہو۔ ہماری فضائیہ نے جب ہندوستان کا "پٹھان کوٹ" بیس (Base) تباہ کیا تو عوام کی خوشی دیدنی تھی وہ فضا میں لڑتے طیاروں کی جنگ دیکھنے کے لیے خندقوں اور اندھیرے کمروں سے نکل کر چھتوں پر آجاتے اور جب اپنی فضائیہ کا کوئی جوان دشمن کاطیارہ گراتا تو نعرہِ تکبیر بلند کرتے۔ ا±سوقت قوم کا جذبہ یہ تھا کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقام پہ جاتے ہوئے اپنے گھروں کی چابیاں فوجیوں کو دے جاتے۔ ا±ن کے ٹیوب ویل، ا±ن کی دکانیں، ا±ن کے مویشی سب افواجِ پاکستان کے لیے وہیں موجود رہیں تا کہ ضرورت پڑنے پر جو وہ استعمال کرنا چاہیں کر لیں۔ سڑک پہ روک روک کر جانے والے فوجیوں کو بوڑھی مائیں چنگیر میں گرم روٹی اور مکھن رکھ کر کھلانے کو کھڑی ہوتیں۔ دانے بھون کر اپنا پیٹ پالنے والے دانوں کو گٹھڑی میں باندھ کر فوجی گاڑیوں میں رکھ دیتے کہ جہاں ا±ن کا سپاہی کچھ نہ ملنے پر بھوکا رہے گا وہاں اِن کو کھا کر اپنا پیٹ بھرے گا اور شاید اسی طرح ہم بھی اس جنگ میں وطن کی حفاظت کے لیے کچھ حصہ ڈال سکیں گے۔
اسوقت قومی تفاخر عروج پر تھا ،عوام اپنی بری،بحری اور فضائی فوج کی پ±شت سے پ±شت لگا کر کھڑی تھی۔ یہ جنگ پاکستان میں پانچ سیکٹروں سیالکوٹ، کشمیر، سلیمانکی، لاہور اور رحیم یار میں لڑی گئی۔بھارت ہم پر اپنی مرضی کے محاذ سے لڑنا چاہتا تھا مگر ا±س کی یہ خواہش ا±س کے گلے کا طوق اور ذلت کا باعث بنی اور جس تندہی کے ساتھ وہ لاہور کی جانب بڑھ رہے تھے ا±سی طرح بی آر بی نہر کے دائیں کناروں کی طرف ا±ن کی وار مشین ر±ک گئی اور وہ ا±س سے آگے ایکدم بھی نہ لے سکے۔ پاکستان کبھی جنگ میں پہل کرنے کا حامی نہیں رہا مگر مسلط کی جانے والی جنگ کے جواب میں جذبہ شہادت لے کر آگے بڑھنے کا عزم نعرہ تکبیر سے اور ولولہ انگیز ہو جاتا ہے اور اپنے ملک کا دفاع خون کا آخری قطرہ اور جسم کا ایک ایک عضو کٹ جانے تک کرنے کا عہدنبھایا جاتا ہے۔ 1965 کی جنگ میں فضائیہ "ڈاگ فائیٹ"اور توپخانے کی توپ "رانی"کی دھاڑ آج بھی ہمارے دلوں کو گرماتی ہے وہ یادیں ہمارے ساتھ ساتھ بڑی ہو رہی ہیں،وہ جذبے ہماری عمروں کے بڑھنے کے ساتھ اور جوالہ م±کھی بن رہے ہیں، ہمارے رطب اللسان شاعر،ادیب،گلوگار ،صحافی اور قوم پل پل ان جوانوں اور عسکری قوتوں کو ہمت و حوصلہ دلاتی رہی ہے۔ ہماری قوم بت شکن ہے ان سترہ دنوں کی جنگ میں ہم نے بہادری اور فتح کا جو جھنڈا ہلال استقلال کے نام سے گاڑھا تھا آج ا±سی جھنڈے کو پھر ہماری قوم کی ا±سی جرات،حوصلہ،اتحاد، قربانی اور ایمان کی گرمائش کی ضرورت ہے۔
بھارت اندھیری رات میں منزل کو چل پڑا
گیدڑ کی موت آئی تو مقتل کو چل پڑا