کہنے کو تو پاکستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں اس وقت بائیس کروڑ انسان زندگی بسر کررہے ہیں لیکن اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کہنے کو تو ہمارا وطن ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ شہیدوں کی سرزمین ہے۔ یہ شہیدوں کی سرزمین ستمبر 65 اور دسمبر 71 کی جنگوں کی وجہ سے نہیں بنی بلکہ اس خطہ زمین کو مرغزار بنانے کے لئے ہزاروں شہیدوں نے اس کو اپنے لہو سے سینچا، اس کی جڑوں میں صرف مردوں کا لہو ہی نہیں بلکہ معصوم شِیر خوار بچوں، نونہالوں، معصوم بچیوں کا خون اور الہڑ دوشیزاﺅں کی عصمتیں بھی شامل ہیں۔
پاک دھرتی کے لئے قربانیوں اور شہادتوں کا سلسلہ اس کی تشکیل کے فوری بعد سے ہی شروع ہوگیا تھا، پھر جب ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تب تو قربانیوں کی ایسی انمٹ داستان رقم کی گئی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، بھارت سے قافلے جذباتی انداز میں پاکستان کی جانب رواں ہوئے اور راستے میں سکھوں کے ہاتھوں لُٹتے رہے، بھارت سے سیکڑوں کی تعداد میں چلنے والے قافلے چند نفوس کی صورت میں پاکستان پہنچتے اور یہاں زندہ پہنچ جانے والے غازی اس پاک سرزمین پر پیشانی ٹیک کر سجدہ¿ شکر بجالاتے۔ پاکستان کی تشکیل میں ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں شہید ہیں جن کے خون پاک سرزمین کو گلزار بنایا، ہزاروں شِیر خوار ہیں جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا جنہیںبلوائیوں نے ماﺅں کی آغوش سے چھین کر فضاءمیں اچھالا اور پھر کرپانوں کی انیوں پر لے لیا یہ انیاں بچوں کے نرم و نازک جسموں کے آر پار ہوگئیں، اس پاک دھرتی کی جڑوں میں ان دوشیزاﺅں کا بھی حصہ ہے جنہیں ان کے والدین نے عصمت کے تحفظ کے لئے کنوﺅں میں دھکیل دیا، اس دھرتی کی تشکیل میں ان جوانیوں کا بھی حصہ ہے جنہیں بلوائی اٹھا کر لے گئے اور کسی کو داشتہ بنا کر رکھ لیا، کسی نے جبراً بیوی بنالیا کسی کو اغوا کرنے والے نے اس بازار میں فروخت کردیا جس کا نام بھی شریف زادیاں اپنے لبوں پر نہیں لاتیں، ان تمام کی قربانیاں پاک سرزمین کی تشکیل میں شامل ہیں ۔
1948ءمیں بھارت نے وادی¿ کشمیر پر لشکر کشی کردی، اس وقت ہماری کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی، بھارتی فوج بے دریغ پیش قدمی کررہی تھی، کشمیری بچے اور جوان بھارت کی تربیت یافتہ فوجوں کے سامنے سینہ سِپر ہورہے تھے اور جام شہادت نوش کئے جارہے تھے ایسے میں ہمارے سرحدی علاقوں کے غیور نوجوان اپنا اپنا اسلحہ لے کر بھارتی فوجوں کے مقابلے کے لئے آگے بڑھے اور ایسے تابڑ توڑ حملے کئے کہ بھارتی فوجوں کے قدم اکھڑ گئے اور انہوں نے پسپائی شروع کردی، جب بھارتی قیادت کو یہ خیال ہوا کہ کہیں پورا کشمیر ہی ان کے قبضے سے نہ نکل جائے تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ چلے گئے اور جنگ بندی ہوگئی لیکن شہادتوں کا سلسلہ نہ تھما، اب بھارت نے کنٹرول لائن یعنی جنگ بندی لائن پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی اور وقتاً فوقتاً بلا اشتعال گولہ باری شروع کردی، 1965ءتک بھارت کی درندہ صفت فوجیں وادی¿ کشمیر میں عالمی قوانین کی دھجیاںاڑاتی رہیں اس دوران کشمیری عوام نے بھی اپنے دفاع کے لئے نوجوانوں کا گروپ تشکیل دے لیا تھا جسے فوج تو کسی صورت نہیں کہا جاسکتا البتہ وہ بھارتی فوجوں کا مقابلہ ضرور کرتے تھے۔
65 ءمیں بھارتی فوجوں نے وادی¿ کشمیر پر بھرپور حملہ کیا کشمیری نوجوانوں نے اس حملے کو روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ نہ کرسکے، اس وقت ریڈیو آزاد کشمیر تراڑکھل سے اناﺅنسروں کی دعائیں سنائی دینے لگیں جو اپنے رب کو پکار رہے تھے اور غیبی مدد کے خواہاں تھے، ایسے میں پاکستان کی غیور فوج برداشت نہ کرسکی اور اس وقت کے پاکستانی صدر محمد ایوب خان نے کشمیریوں کی امداد کے لئے اپنے فوجی جوانوں کوآگے بڑھایا جنہوں نے جاتے ہی ایسی بھرپور جوابی کارروائی کی کہ بھارتی فوجوں کو بھاگتے ہی بن پڑی اس سے قبل رن آف کچھ میں بھی بھارتی فوجیں شکست کا مزا چکھ چکی تھیں، جب بھارتی قیادت کو یہ محسوس ہوا کہ اب نہ صرف پورا کشمیر ان کی گرفت سے نکل جائے گا بلکہ کچھ بھارتی علاقہ بھی پاکستاتی تسلط میں چلا جائے گا تو انہوں نے رات کی تاریکی میں 6 ستمبر 1965ءکو عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بین الاقوامی سرحدیں عبور کرکے واہگہ، قصور، سیالکوٹ وغیرہ پر حملہ کردیا، بھارت کی فوجی قیادت کا ناپاک منصوبہ یہ تھا کہ وہ دوپہر تک لاہور پر قبضہ کرکے شام کو جم خانہ کلب میں چائے پئیں گے جبکہ سرحدوں پر ہماری باقاعدہ فوج نہیں تھی بلکہ سرحدی محافظ تھے اور بھارتی حملے کے بعد ہائی کمان نے ان کو حکم دیا تھا کہ جب تک فوج نہ پہنچ جائے اس وقت تک کسی بھی صورت بھارتی فوجی درندوں کو روکے رکھو اور ہمارے نظم و ضبط کے پابند جوانوں نے اپنی قیادت کے حکم کی تعمیل کی اور بھارتی فوجی بھرپور زور لگانے کے باوجود بی آر بی نہر سے ایک قدم بھی پیش قدمی نہ کرسکے ۔
ہمارے جوانوں نے بی آر بی نہر کے پُل کو اڑا دیا تھا تاکہ بھارتی فوجی نہر کو عبور نہ کرسکیں اور پھر سترہ روز اپنی بھرپور قوت لگانے کے باوجود بھارتی فوجی پیش رفت کی حسرت لئے جہنم واصل ہوتے رہے، 65ءکی جنگ میں لاہور، قصور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر شدید جنگ ہوئی جبکہ سیالکوٹ کے محاذ پر تودوسری جنگِ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ ہوئی، ہمارے فوجی جوان اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور جب ٹینک ان کے جسموں سے ٹکرائے تو بم پھٹنے سے ان کی چین ٹوٹ گئی اور وہ وہیں رک گئے، ان تمام واقعات میں ہمارے جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے۔
اس کے بعد بھی قربانیوں کا سلسلہ نہ رکا پھر دسمبر 71ءکا معرکہ شروع ہوگیا اس میں ہم عالمی سازش کا شکار ہوگئے اور یہ صرف سازش ہی نہیں تھی بلکہ اس میں سپرطاقتیں بھی شامل تھیں، عالمی سازش کی بنا پر ہم اپنا مشرقی بازو کھو بیٹھے اور ہمارے 90 ہزار شہری اور فوجی قیدی بنالئے گئے، جنہیں بعد میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو چھڑا کرلائے، لیکن قربانیوں کا سلسلہ اس دوران بھی جاری رہا،بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر جارحیت جاری رہی۔ اس دوران سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کردیں اس کا مقصد افغانستان کے بعد پاکستان پر قبضہ کرکے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا تھا لیکن امریکہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان نوجوانوں کو جہاد کا نام لے کر مجاہد بنایا اور افغانستان بھجوادیا جب یہ نوجوان کامیاب ہوگئے تو امریکہ انہیں لاوارث چھوڑ کر واپس لوٹ گیا یہ مجاہدین چونکہ پاکستان کے راستے افغانستان گئے تھے لہٰذا امریکہ کے جانے کے بعد کچھ افغانستان میں رہ گئے اور کچھ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آباد ہوگئے اور دہشت گردی کی وارداتیں کرنے لگے، اب امریکہ نے دہشت گردی کو روکنے کے لئے پاکستان پر دباﺅ ڈالنا شروع کیا، اس دوران نائن الیون کا ڈرامہ سٹیج کرلیا گیا اور اس کو بنیاد بنا کر امریکہ نے پہلے افغانستان، پھر عراق، لیبیا کو نشانہ بنایا مصر میں اسلام دوست حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل السیسی کو اقتدار میں لایا گیا جو امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوگیا،امریکی حملے کے بعد سابقہ مجاہدین اور حالیہ دہشت گردوں نے امریکی مفادات پر حملے شروع کردئیے اس پر امریکہ نے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کا پروگرام بنایا اور پاکستان کو اپنے ساتھ دھمکی دے کر شامل کرلیا اور افغانستان میں ایک بار پھر جنگ شروع ہوگئی، پاکستانی فوجی جوان اور شہری قربانیاں دیتے رہے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کے ستر ہزار شہری اور دس ہزار سے زائد فوجی جوان اور افسر شہید ہوئے جبکہ کھربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔
پاک فوج نے اپنے شہریوں اور تنصیبات کو بچانے اور وطن عزیز کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے کئی آپریشن شروع کئے جن میں کامیاب آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد رہے، آپریشن ردالفساد اب بھی جاری ہے اس آریشن میں ہم نے وطن عزیز کو دہشت گردوں سے پاک کرلیا اور تمام دہشت گرد یا تو ختم ہوگئے یا فرار ہوکر افغانستان چلے گئے، لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ اتنی قربانیاں دینے کے باوجود امریکہ ہمیں ہی موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان میں موجود ہیں اور امریکہ ہمیں ان کے خلاف مو¿ثر کارروائی کا کہہ رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں اگر اس وقت کوئی دہشت گرد ہے تو وہ امریکی فوجی ہیں جو افغانستان میں موجود ہیں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہیں، بہرحال ہم ان حالات میں بھی قربانیاں دے رہے ہیں کہیں کوئی بارودی سرنگ پھٹ جاتی ہے اور ہمارے جوان درجہ¿ شہادت پر فائز ہوجاتے ہیں یہ سلسل جاری و ساری ہے اور انشاءاللہ جاری رہے گا کیونکہ: ”ہم سرکٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکاسکتے ہیں“۔
اس مرتبہ 6 ستمبر کو تزک و احتشام سے منایا جارہا ہے اور خاص طور پر شہدا کو یاد کیا جارہا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے پوری قوم کو شہداءکو خراج عقیدت پیش کرنے کا کہا ہے، یہ شہدا ہمارا سرمایہ ہیں، یہ شہدا ہمیں وطن عزیز پر تن من دھن قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا فرماتے ہیں، یہ شہدا ہماری دوشیزاﺅں کے عزتوں کے محافظ ہیں، یہ شہدا ہمارے ضعیف والدین کے بڑھاپے کا سہارا ہیں، یہ شہدا ہماری بہنوں کی عصمتوں کے نگران ہیں، یہ شہدا ہمارے بچوں کے مستقبل کی ضمانت ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان شہداءکی سرزمین ہے، پاکستان دنیا کی واحد سرزمین ہے جس کی حفاظت کے لئے لاکھوں شہدا نے اپنی جانوں کا نذرانہ، ہزاروں کنواریوں نے اپنی عصمتوں کا، سیکڑوں دوشیزاﺅں نے اپنی زندگیوں کا، سیکڑوں بچوں نے اپنے بچپن کا نذرانہ پیش کیا، یہ شہید ہی ہماری بقا و سلامتی کی ضمانت و علامت ہیں، شہدائے وطن کو ہمارا سلام، اے گمنام شہدا ہمارا سلام ہو تم پر، اے وطن کے گم نام محافظو ہمارا سلام قبول کرو، آج ہمارا مقدس پاک وطن پاکستان اللہ کے کرم اور تمہاری شہادتوں کے باعث شاد و آباد ہے اور انشاءاللہ ایسے ہی تا ابد شاد و آباد رہے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024