آزادی حاصل کر لینا کوئی آسان کام نہیں۔ آگ اور خون کے بپھرے دریا عبور کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی مشکل ترین کام اس آزادی کی حفاظت کرنا ہے۔ مادر وطن کی حفاظت اور ارض پاک کی بقا کی قیمت صرف رزم گاہوں سے فتح یاب لوٹے غازی اور میدان جنگ میں شہادت سے ہم آغوش ہوتے شہداءادا کرتے ہیں۔ خوش نصیب ہے وہ قوم جس کے فرزند اور سرفروش دختران پاک شہادت کو گلے لگانے کیلئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کیلئے بے چین رہتے ہیں۔
14 اگست، ارض پاک کا یوم آزادی ہے تو 6 ستمبر روز بقا۔ ابھی یوم آزادی گزرے کوئی تین ہفتے بھی نہیں ہوئے۔ ابھی چھتوں پر لہراتے وہ سبز ہلالی پرچم نہیں اترے۔ آج بھی دکانوں، مارکیٹوں میں سجی جھنڈیاں، افتخار کی نشانیاں بن کر آویزاں ہیں۔ ابھی فضاﺅں میں آتش بازی کی وہ بو موجود ہے جو منچلوں نے بے چین ہو کر اظہار خوشی کیلئے چلائی تھیں۔ ابھی وہ انار، وہ پھل جھڑیاں آنکھوں کے سامنے دوڑتی ہیں۔ ابھی وہ مبارک سلامت کے وارفتگی سے لبریز گرم جوش پیغام سماعتوں میں گونجتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کسی لمحہ خاص میں، کوئی سوال، بے موسمی کونپل کی طرح کھل اٹھتا ہے۔ اگر 6 ستمبر 1965ءکا دن طلوع نہ ہوتا۔ اگر اس روز پاک فوج کے وہ سرفروش، وہ بے سروسامانی، وہ قلت تعداد کا شکار، اللہ کے شیر، دشمن کی راہ میں فصیل جاں لیکر نہ کھڑے ہو جاتے تو، کیا یہ قلمکار آج عشروں بعد اپنے گھر، محلے، شہر اور ملک میں آزادی کی سانسیں لے رہا ہوتا؟ جواب نفی میں آیا۔ روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ ان قوموں کی تصویریں، ان کی فوٹیج، نگاہوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ وہ جو اپنے تہوار نہیں منا سکتی۔ وہ جو عیدالاضحیٰ پر قربانی جیسا مقدس فریضہ بھی چھپ کر ادا کرتے ہیں۔ وہ جن کی مساجد محفوظ نہیں۔ وہ جن کی عزتیں ارزاں ہیں۔ وہ جن کو کروڑوں میں ہونے کے باوجود اقلیت کہا جاتا ہے۔ سو! 6 ستمبر کی صبح جب بھارتیوں نے مقدس دھرتی کی سرحد کو عبور کر کے ارض پاک پر قدم رکھنے کی ناپاک پلاننگ کی۔ لاہور، جم خانہ، برطانوی نو آبادیاتی دور کی یادگار وہ کلب جس کے سرسبز لان، بھارتیوں کی آنکھوں میں سپنا بن کر سمایا ہوا تھا۔ شام پانچ بجے کا وقت طے پایا۔
صبح صادق سے بہت پہلے سرحد عبور کی جائے گی اور سرحد سے 14 میل دور شہری آبادی کو روند کر، شام پانچ بجے جم خانہ میں چائے پی جائے گی۔ اسی شام فتح کے جام لنڈھائے جائیں گے۔ جم خانہ میں چائے نوشی تو محض ایک علامت تھی۔ وہ صرف انیس سال پہلے آزادی کی محنت سے سرفراز ہونے والی قوم سے اس کی بقا اور سالمیت چھننے آئے تھے۔ وہ ان قربانیوں پر ڈکیتی کی واردات کرنے آئے تھے جو ہجرت کے عذاب سے گزری قوم نے سینے پر سجا رکھی تھیں۔ وہ عددی برتری کے نشے میں چور اپنی ٹائمنگ، اپنی پسند کے محاذ کا انتخاب کر کے آگے بڑھے۔ عسکری زبان میں ایسے ایڈوانچر کو یقینی فتح کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے لاہور، قصور، سیالکوٹ کے محاذ پر 21 انفٹری اور ماﺅنٹین ڈویژن، آرمرڈ ڈویژن ایک انڈی پینڈنٹ آرمرڈ بریگیڈ گروپ سمیت کل 23 ڈویژنوں کے ہمراہ حملہ کیا۔ اس کے مقابلے میں پاک فوج کے پاس صرف 7 ڈویژن تھے۔ لیکن وہ مقابلہ عسکری حربوں کا تھا نہ دفاعی و عسکری صلاحیت کا۔ وہ جذبوں، ولولوں اور تمنائے سرفروشی کا مقابلہ تھا۔ ایک طرف تین گنا بڑی فوج اور جدید ترین جنگی مشینری تھی۔ دوسری جانب وہ اللہ کے شیر، جو نہ جانے کب سے اس معرکہ کیلئے منتظر تھے جو دن رات اللہ سے دعائیں مانگتے۔ اللہ سبکدوشی سے پہلے ایک دفعہ دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کا موقع عطا کر دینا۔ کہیں ایسا نہ ہو غازی اور شہید کے رتبہ جلیلہ کے بغیر ہی ریٹائرمنٹ آ جائے۔
سو! وہ تو منتظر تھے کہ کب طبل جنگ بجے اور وہ لبیک کہہ کر وہ قرض اتار دیں جو واجب الادا تھے۔ دشمن کا خیال تھا کہ اس کے برق رفتار حملے لاہور، گوجرانوالہ سے ملک کو کاٹ دینے کے بعد گھٹنے ٹیک دیئے جائیں گے۔ لیکن لاہور تک کے 14 میل اور سیالکوٹ تک کا 6 میل کا فاصلہ صدیوں کا سفر بن گیا۔ ان چند میلوں کے اندر راہ میں جگہ جگہ اپنے جواں رعنا جسموں کو فصیلیں بنائے، اپنے لہو کے چراغ ہتھیلیوں پر سجائے دھرتی کے ہر انچ موجود تھے۔ جن کے سامنے ٹینک کاغذی کھلونے بن کر رہ گئے۔ کوئی ان ٹینکوں کا کچرا اٹھانے والا بھی باقی نہ رہا۔ ان سترہ دنوں میں سیالکوٹ پر 15 بڑے حملے کئے گئے۔ دشمن ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔ پاکستان کے دل لاہور پر تیرہ بڑے حملے ہوئے۔ پیش قدمی تو ایک طرف وہ زندہ جاوید غازیوں اور شہیدوں کے لہو کی امانت دار نہر بی آر بی ، دفاع کا عظیم استعارہ بن کر رہ گئی۔ بھارت نے بار بار مزاحمت کی، ان دیواروں سے ٹکرایا۔ ساری قوم اپنی چھتوں پر، سرفروش سپاہی محاذ پر ان کو للکارتے اور پیچھے دھکیلتے رہے۔ آخر کار سترہ دن بعد پسپائی کا سیاہ داغ ماتھے پر سجا کر دشمن سرحد پار واپس لوٹ گیا۔دنیا میں آج تک دفاع وطن کی ایسی طویل جنگ شاید ہی کسی قوم نے لڑی ہو۔ وہ دشمن جو شکست کھا کر لوٹ گیا تھا۔ آج بھی وار کرتا ہے۔ کبھی ایل او سی پر، کبھی ورکنگ باﺅنڈری پر، کبھی وہ کراچی میں بھیس بدل کر حملہ آور ہوتا ہے۔ کبھی وہ بلوچستان کے ریگزاروں میں اپنے زرخریدوں کے ذریعے دہشت گردی کا نیٹ ورک چلاتا ہے۔ اس کا بس چلتا ہے تو قبائلی علاقہ جات میں خون کی ہولی کھیلتا ہے۔ ہر مرتبہ اس کو دندان شکن جواب ملتا ہے۔
وہ 1965ءجب اپنے سے تین گنا بڑی عسکری مشینری کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے تھے۔ آج کا پاکستان ایٹمی پاکستان ہے۔ جس کے سمندروں میں تہہ آب میں جدید ترین آبدوزیں چپ چاپ تیرتی ہیں۔ جس کے میزائل ہواﺅں کے شانوں پر سوار ہو کر دشمن پر قہر کی مانند برسنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ جس کی فضاﺅں پر شاہین پرواز کرتے اور جس کی بری افواج کے گرانڈیل جوان ہمہ وقت چوکس، فرمان امروز کے منتظر رہتے ہیں۔ جس کے اسلحہ خانوں میں دفاع کے ضامن ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ امن ہماری پہلی اور آخری آپشن ہی نہیں۔ ضرورت بھی ہے۔ لیکن جب نقارہ جنگ پر چوٹ پڑے تو کون ہے جو پیچھے ہٹے گا۔ 21 کروڑ میں سے ایک بھی نہیں۔ ہمارے اور دشمن کے بیچ، دھرتی کے سینے سے لپٹی تقسیم کی لکیر پر شہیدوں کا خون گرا ہے۔ اس ٹھوس لکیر پر قدم رکھنے والے کے پاﺅں جل جائیں گے۔