مجھے یاد ہے وہ دن بھی پیارے.... جب پہلی بار میں نے تمہیں دیکھا تھا!!! اس دن اور آج کے بیچ فقط پانچ سال کا وقفہ ہے۔ اس روز تمہارے چہرے پر مسکراہٹ اس آن گہری ہو گئی تھی، تمہاری آنکھوں میں ایک انوکھی چمک لہرائی تھی، جب میں نے ہمت کر کے نظر اُٹھا کر تمہیں دیکھا تھا۔ آج بھی میں نے ہمت کر کے نظر اٹھائی ہے اور تمہیں دیکھا ہے تو مجھے لگا ہے کہ تمہارے چہرے پر مسکراہٹ اور بھی گہری ہو گئی ہے اور تمہاری آنکھوں میں ایک انوکھی چمک لہرائی ہے پھر وہ دن اور آج کا دن ایک جیسے کیوں نہیں؟ سب کچھ بدل کیوں گیا ہے۔ کیا تم مجھے میرے اس سوال کا جواب دو گے، کیا کوئی اور میرے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ کوئی اور تو تب میرے سوال کا جواب دیگا اگر میں انہیں اپنے اور تمہارے بیچ پہلی ملاقات سے لے کر آج تک کے سفر کی داستان سنا¶ں گی۔ پہلا دن وہ تھا جس روز تم اپنے گھر والوں کےساتھ میرے ماں باپ کے گھر کے ڈرائنگ روم میں اس رخ پر بیٹھے تھے کہ ڈرائنگ روم میں داخل ہونے والے ہر شخص پر سب سے پہلے تمہاری نظر پڑتی، کیونکہ تم ماہر تو تھے strategic positions کے، اسی لئے میں اندر داخل ہوتے ہی تمہاری نظر کی زد میں آئی اور تم نے اپنی نظر کے حصار میں ہی مجھے اس سیٹ تک پہنچایا جو میں نے اپنے لئے سوچ رکھی تھی تاکہ میں موقع ملنے پر تمہیں دیکھ سکوں، کمرے میں اتنے لوگوں کی موجودگی میں، مجھے دیکھ کر، تمہاری آنکھیں اس ان کہی داستان کو سب کے سامنے بیان کر رہی تھیں۔ مبارک باد اور مٹھائی کا غُوغا اٹھا‘ غالباً کسی نے نظر ہی نظر میں تم سے عندیہ لے لیا ہو گا، لڑکیوں سے پوچھنے کی ضرورت ہمارے ہاں کم ہی سمجھی جاتی ہے۔ اس سے قبل میرے گھر والے تمہیں اور تمہارے گھر والے مجھے دیکھ چکے تھے۔ اس روز کی ملاقات اس سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر پلان کی گئی تھی۔ باقاعدہ منگنی کے بعد ہم دونوں کے مابین محدود رابطے کی اجازت دےدی گئی ۔ شادی کے لئے دن مقرر ہو گیا تو میرے دل و دماغ میں بھی کئی طرح کے خیالات کا بسیرا ہو گیا، یونہی جیسے ہر لڑکی اپنی شادی کے حوالے سے سوچوں اور الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہے”مجھے تم سے محبت ہے پیاری.... “ تم نے شب زفاف مجھ سے پہلا فقرہ کہا، میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی، ” مگر اس سے بڑھ کر مجھے اپنی دھرتی ماں سے محبت ہے!! “ تم نے فقرہ مکمل کیا۔
شادی کے بعد پہلی پوسٹنگ پر ملنے والا وہ قدیم طرز کا دو کمروں کا ایک سیٹ.... میری جنت تھا، جس میں میرا اورتمہارا ساتھ تھا، تم کام سے گھر آتے تو میں دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے ہوتی- صبح اورکبھی شام کو دوبارہ تمہیں وردی پہن کر جانا پڑتا تو میں نظر چرا لیتی، تمہیں ایسا بانکا سجیلا دیکھ کر کہیں میں تمہیں نظر نہ لگا دوں، میں تم پر قرآنی آیات کاحصار باندھ کر تمہیں رخصت کرتی۔ جاتے ہوئے جب تک تمہاری پیٹھ مجھے نظر آتی رہتی، میں اس وقت تک دروازے سے نہ ہٹتی تھی۔ تمہارے پاس فرض کے ادائیگی کے علاوہ جو وقت بھی بچتا تھا وہ تم میرے ساتھ گزارتے تھے، نہ کوئی کلب، نہ دوستوں سے گپ شپ کا وقت جس سے تمہیں ملنا ہوتا یا جہاں جانا ہوتا، تم میرے ساتھ ہی جاتے تھے۔ تم کہتے تھے کہ تمہاری زندگی میں دو ہی چیزیں اہم ہیں، فرض اور تمہاری بیوی- اہم چیزوں میں جلد ہی ایک بیٹے کا اضافہ ہو گیا تو تم صبح گھر سے جاتے وقت واپس مڑ کر لوٹ کر اپنے بیٹے کو ایک اور الوداعی بوسہ دینے آتے تھے - بیٹے کی پیدائش کے بعد تمہارے دل میں اپنے ماں باپ کی محبت بڑھ گئی تھی - تم مجھ سے کہتے تھے، ” میرے ماں باپ بھی مجھے اسی طرح چاہتے ہونگے نا جیسے میں اسے چاہتا ہوں !!“ تم انہیں زیادہ فون کرتے اور جتنا ممکن ہوتا انہیں ملنے کو جاتے تھے۔ کبھی اصرار کر کے انہیں اپنے پاس بلاتے اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ دوسرے بیٹے کی ولادت کے وقت تم گھر پر نہیں تھے۔ کسی ڈیوٹی پر تھے اور اس روز گھر پہنچے جب ہمارا بیٹا چار دن تک بے نام زندگی گزار چکا تھا، مجھے اندازہ ہو گیا تھا دو برسوں میں کہ اس زندگی میں کتنی کٹھنائیاں ہیں۔ کیسے کیسے مشکل مراحل تھے جن سے مجھے گزرنا تھا-”میں نے بہت مشکل وقت گزارا ہے۔ اکیلے اتنی بڑی آزمائش سے گزری ہوں، میں نے موت اور حیات کی کشمکش میں بارہا تمہیں اپنے پاس دیکھنا چاہا تھا، تمہارا ساتھ مجھے تقویت دیتا ہے، میں نے خود کو بہت کمزور پایا!!“ آنسو مرے گالوں پر بہہ نکلے.... ”فوجی کی بیوی روتی تو نہیں!!“ تم نے ہنس کر کہا تھا- ” کیوں .... فوجی کی بیوی کیا پتھر کی بنی ہوئی ہوتی ہے اور اس کا دل لوہے کا؟ “ میں نے خفگی سے پوچھا تھا۔” ہوں “ تم نے پر خیال نظروں سے میری طرف دیکھا تھا، ” لوہے اور پتھروں سے مضبوط بھی کچھ ہوتا ہے؟ “” نہیں!!“ میں نے ناراضی کا اظہار کیا-” پتھر کی بجائے تم میری بیوی کو ہیرے سے اور لوہے کی بجائےTitanium سے تشبیہہ دیتیں تو مجھے خوشی ہوتی!!“ تم ہر بات سے کوئی ایسی منطق نکال لیتے تھے کہ میرے اندر طمانیت پھیل جاتی تم نے مجھے ہیرا کہا تھا تو مجھے ہیرا بن کے دکھانا تھا، کوئی عام پتھر نہیں۔
” ابھی تو تم سال بھر پہلے وہاں سے واپس لوٹے ہو، کیسے تمہیں دوبارہ وہاں بھیجا جا سکتا ہے؟ “ میں نے احتجاج کیا۔ ” وہ مجھے نہیں بھیج رہے.... میں نے خود رضا کارانہ طور پر وہاں جانے کا فیصلہ کیا ہے!!“
” میں کچھ نہیں جانتی.... میں ایسے کڑے حالات میں تمہیں وہاں نہیں جانے دے سکتی، یہ تو خود کشی کے مترادف ہے!! “ میں نے ضد کی ” خدا کےلئے.... اتنی چھوٹی بات مت کرو.... میں عظیم ترین موت کی خواہش میں ہر سانس لیتا ہوں اور تم اسے حرا م موت سے تشبیہ دے رہی ہو؟ “
” سوری....“ مجھے فورا اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ ” بس تم دعا کرنا کہ مجھے اللہ تعالی کبھی شکست کی ذلت سے دو چار نہ کرے۔ اپنے قدموں پر لوٹوں تو غازی بن کر ورنہ قومی پرچم میں لپٹ کر اپنے ساتھیوں کے کندھوں پر سوار ہو کر!!“ میں تمہارے جذبے کے آگے سسکنے کے سوا کچھ نہ کر سکی تھی۔ ” میرے کسی بچے کو بزدل نہ بنانا نہ ہی انہیں فوج سے متنفر کرنا جو اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہو اس کی راہ کھوٹی نہ کرنا، خود بھی بہادر بننا اور انہیں بھی بہادر اور مادر وطن کے متوالے بنانا.... تینوں کو!!“ ہم تیسرے بچے کی آمدکی توقع کر رہے تھے- ابھی علم نہ تھا کہ وہ بیٹا ہے یا بیٹی میں نے اپنے نالے اور آہیں دل ہی دل میں دبا کر تمہیں رخصت کیا تھا، میرے دل میں بہت سے خدشات تھے، اب کی بار جو باتیں تم نے میرے ساتھ وقت رخصت کی تھیں وہ ایسی ہی تھیں کہ مجھے تمہارے جذبوں کی شدتیں ڈرا رہی تھیں۔ میرا خوف بے جا نہ تھا، تم اسی طرح لوٹے ہو جیسے تمہاری خواہش تھی، عظیم سر زمین کے عظیم سبز ہلالی پرچم میں لپٹ کر اپنے پیارے ساتھےوں کے کندھوں پر سوار ہو کر- تمہاری آنکھیں کھلی ہیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی ہے جیسے تم اپنی محبوبہ کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہو، تمہارے چہرے پر نیلا نیلا رواں ہے اور تمہارے وجود سے وہ خوشبو اٹھ رہی ہے جس پر جنت کی حوریں بھی قربان ہوں گی۔ مجھے لگ رہا ہے کہ تمہاری مسکراہٹ اور گہری ہوئی ہے اور تمہاری آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا ہے۔ تمہاری نشانیوں میں سے دو میرے وجود کے ساتھ لپٹ کر نا سمجھی سے اور سوالیہ نظروں سے اپنے ارد گرد ہچکیاں اور سسکیاں لے کر روتے ہوئے چہروں کو دیکھ رہے ہیں اور ایک میرے وجود کے اندر بے چین ہے، اسے تین ماہ کے بعد دنیا میں یتیم پیدا ہونا ہے، مجھے رونا نہیں آ رہا کیونکہ مجھے تمہارے باز¶ں کا مضبوط حصار اپنے گرد محسوس ہو رہا ہے- میرے بیٹوںمیں سے جو بھی باپ کے نقش پا پر چلنا چاہے گااسے میں منع نہیں کروں گی بلکہ تمہاری کہانی سنا سنا کر میں انکے دلوں میں مادر وطن کی محبت پیدا کر دوں گی ۔مجھے فخر ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ زندگی کے قیمتی چار برس گزارے اور اپنے دامن میں وہ ہیرے لے کر بیٹھی ہوں جو کہ کل میرے لئے مزید فخر کا باعث ہونگے۔ سلامت رہے یہ پیارا وطن جس پر تم جیسے چاہنے والے پروانوں کی مانند نثار ہوئے۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے