اس میں کوئی شک نہیں کہ ستمبر 1965 ء کی جنگ میں پاک فوج کے جوانوں نے قربانیوں اور شجاعت کی جو لازوال داستانیں رقم کیں وہ رہتی دنیا تک مثال بن چکی ہیں۔ گزشتہ ماہ وفات پانے والے جنرل (ر) حمید گل اس جنگ میں چونڈہ کے محاذ پرتھے۔یہاں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی لڑی گئی ۔ جنرل حمید گل اس محاذ پر فرائض سر انجام دینے پر فخر کیا کرتے تھے ۔ وہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن ابھی کئی ایسے افراد ہمارے درمیان ہیں جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا ۔انہی میں میجر (ر) محمد شبیر احمد بھی شامل ہیں ۔ وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بھی رہے ۔انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ شجاعت دیا گیا۔
اگلے روز میجر صاحب جنگ ستمبر کی داستانیں سنا رہے تھے ۔گفتگو کے دوران ایک اور ہی کہانی شروع ہو گئی ۔ یہ فتح کے دوران رکھی گئی شکست کی داستان تھی ۔میجر صاحب کہنے لگے : 1965 کی جنگ میں بھارت کو ہم پر برتری حاصل تھی ۔ ہمارے پاس اسلحہ اور ایمونیشن کم تھا۔ جنگ جاری ر ہتی تو شاید یہ سب بھی ختم ہو جاتا لیکن ہم دشمن کو پھر بھی آگے نہ بڑھنے دیتے ۔ہمارے پاس ایک ٹینک ایک شہادت کا جذبہ تھا۔
میجر صاحب 6 ستمبر سے پہلے گرم ہو جانے والے محاذ جوڑیا ںکے چشم دید گواہ ہیں ۔ اسی محاذ پر 1965 ء کی جنگ کی فتح میں 1971ء کی شکست کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ ایک طرف جوان اپنی لاشیں بچھا کر دشمن کو روکے ہوئے تھے ، دوسری طرف اعلی سطح پر مفادات کی سیاست شروع ہو چکی تھی۔جنرل اختر ملک کواپریشن جبرالٹر کی کمانڈ سے ہٹاکر ایوب خان اور جنرل موسیٰ نے جنرل یحیٰ خان کو سونپ دی ۔ جنرل اختر اس محاذ پر فتح کے پرچم گاڑ رہے تھے وہ فتح کا تاج جنرل اختر سے چھین کر یحیٰی خان کے سر رکھنا چاہتے تھے ۔ یہ ایوب خان کا ایسا فیصلہ تھا جو ہماری فوج کی روایت نہیں ہے ۔ کمانڈ تبدیل ہوئی تو اگلے محاذ پر پیش قدمی نہ ہو سکی اور اسی رات بھارت نے پاکستان پر باقاعدہ حملہ کر دیا۔ جب جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے تو 22جولائی کو ایئر مارشل اصغر خان فضائیہ کے سربراہ کے عہدے ہٹا کر ایئر مارشل نور خان کو کمانڈ دی گئی تھی۔
ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان اپنے والد کا دفاع کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل اختر نے فوج کشمیر میں پھنسا دی تھی ۔ بھٹو اور جنرل اختر کی غلط پالیسیوںکی وجہ سے یہ جنگ چھڑی جبکہ میجر (ر) شبیر احمد کہتے ہیں کہ ہمیں پیش قدمی کا ٹاسک ہی نہیں دیا گیا تھا۔ ہم نے تو کشمیر میں موجود بھارتی فوج کو روکے رکھنا تھا جس میں کامیاب رہے تھے۔
بھارتی فضائیہ کے سربراہ راجن سنگھ اصغر خان کے کلاس فیلو تھے۔ گوہر ایوب خان کے مطابق ہمارے ایئر چیف اصغر خان نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو پیغام بھیجا کہ یہ بری فوج کا تنازع ہے، فضائیہ کو اس میں نہیں کودنا چاہیے ۔ اصغر خان کی اس حرکت پر فضائیہ کی کمان ان سے لے کر نور خان کو دی گئی۔ ان الجھی ہوئی کہانیوں کے سرے تاریخ جلد ہی تلاش کر لے گی ۔ البتہ یہ طے ہے کہ حالتِ جنگ میں اعلیٰ قیادت متنازعہ اور مفاداتی فیصلے کر رہی تھی۔ ایوب خان درست تھے تو پھر جنرل اختر اور اصغر خان پر سوال اٹھتے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ ایسے فیصلوں پر کوئی اوپن ہائوس انکوائری نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی کو سزا دی گئی ۔
مجھے لگتا ہے کہ جوڑیاں کے ایک محاذ کی کہانی میں1971ء کا پورا سانحہ دفن ہے ۔ کیا خبر ایوب خان نے خوشامدیوں کی خاطر اور کتنے محاذوں کے اصل ہیروز کو ’’کھڈے لائن ‘‘ لگا یا ہو۔ جب فاتح سے فتح کا اعزاز چھین کر خوشامدیوںکے سر باندھا جانے لگے تو وہی ہوتا ہے جو 1971 ء میں ہوا تھا۔1971 ء تکیحیٰی خان ایسے افراد منظر نامے پر چھا چکے تھے اور میدان جنگ کے اصل بہادر ایک طرف کر دیے گئے تھے ۔جب اعلی کمانڈ بہادری کے اعزازت چرانے لگے اور سیاسی رنگ اختیار کر لے تو پھر دفاع کمزور ہونے لگتا ہے۔1965ء میں ہماری کمانڈ انہی کے ہاتھ میں تھی جو لڑنا جانتے تھے۔ پاکستان نے اس جنگ میںتاریخی فتح حاصل کی ۔اس فتح کے بعد بعض محاذوں کی کامیابی کا سہرا ان سروں پر سجایا جانے لگا جنہیں مفادات کی بنا پر آخری لمحوں میں کمانڈ دی گئی ، لہذا محض 6 برس میں کھیل کا پانسہ پلٹ گیا ۔ ایوب خان فیلڈ مارشل تھے لیکن سیاست میں اترے تو قوم کو یحیٰی خان ایسے تحفے دے گئے ۔انہوں نے مادر ملت کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے ۔
اب پھر ایسی باتیں شروع ہو گئی ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ بہادری کے تمغے سجانے والوں کو سیاسی جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔منصوبہ ساز شاید بھول گئے کہ اس بار محافظ وہ ایوب خان نہیں جو منظور نظر کو فتح کا کریڈیٹ دیتا رہا اور نہ ہی وہ اصغر خان ہے جس پر دفاع کی بجائے دشمن سے سمجھوتے کا الزام لگا ہے۔ اب کی بار جو محافظ میدان جنگ میں کھڑا ہے اس کا تعلق لڑنے والے سپاہیوں سے ہے۔ اسی لیے اب بھارت دھمکی دیتا ہے تو ہمارے بچے بھی کھلکھلا کر ہنس پڑتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارا محافظ احتساب کرتا ہے تو فوج کے جرنیل بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38