یوم دفاع

قوموں اور ملکوں کی تا ریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں یہ دن فرزندان وطن سے حفاظت وطن کیلئے جان و مال کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں مائوں سے انکے جگر گوشے ،بوڑھے باپوں سے انکے سہارے ،بہنوں سے انکے بھائی ، سہاگنوں سے انکے سہاگ ،بچوں سے انکے باپ کو قربان کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ قربانی کی لازوال داستانیں رقم کرنے کیلئے سروں پر کفن باندھ کر سرفروشانِ وطن رزمگاہ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں آزادی کے متوالے اپنی جان و مال اپنی دھرتی کی حفاظت کیلئے دیوانہ وار لڑتے ہیں کچھ جامِ شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی ،وقار،سلامتی اور علیحدہ تشخص قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔6ستمبر 1965 کی صبح بھارت اچانک پاکستان پر حملہ آور ہوا اس کا ارادہ تھا کہ وہ صبح کا ناشتہ لاہور کے جم خانہ کلب میں کریگا لیکن اس کا خواب خواب ہی رہ گیا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں بار بار ذلت اٹھانے کے باوجود بے غیرت ہندو قوم کو ہوش نہیں آیا کہ وہ جس جانباز قوم سے ٹکرانے کیلئے نکلا ہے وہ کٹ تو سکتی ہے جھک نہیں سکتی ۔اس جنگ میں اپنا کردار جس طریقے سے ادا کیا اسکی مثال تاریخ عالم میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی لیکن اسکے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم نے بھی اپنا بے مثال کردار ادا کیا ۔یہ حقیقت ہے کہ جنگ محض ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں سے جیتی جاتی ہے اور 1965کی جنگ میں پاکستانی قوم کے جذبے بیدار تھے ۔
قارئین! میں آپ کو پاکستانی قوم کے جذبہء قربانی کا ایک واقعہ جو1965کی جنگ کے دوران پیش آیا شئیر کرنا چاہوں گی ۔ لاہور میں ایک بھکاری سارا دن لاہور کے گھروں میں بھیک مانگتا تھا لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کی وہ روٹی کپڑے کی بجائے نقد پیسے مانگتا تھا لوگ اسے لعن طعن کرتے ،جھڑکیاں دیتے لیکن وہ اتنی بے عزّتی کے باوجود پیسوں کے لیے اصرار کرتا رہتا اور شام تک جو پیسے جمع کرتا وہ فوج کے لیے بنائے گئے امدادی کیمپ کے ریلیف فنڈ میں جمع کروا دیتا اور خود دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا اور اپنے جھولے سے سوکھی روٹی نکال کر پانی میں ڈبو ڈبو کر کھا لیتا ۔ایک صحافی نے جب یہ منظر دیکھا تو اس نے پوچھا تم ایسا کیوں کرتے ہو بھکاری نے بڑے جذبے سے جواب دیا کہ مجھ سے زیادہ میرے وطن کو ان پیسوں کی ضرورت ہے میرا وطن سلامت رہے گا تو مجھے بھی رزق ملتا رہے گا ۔ قارئین ! پاکستان کے جو دشمن اسے دنیا کے نقشے سے مٹانے آئے تھے وہ ہمیشہ کے لیے ناکامی کا بد نما داغ اپنے چہرے پر سجا کر چلے گئے وہ شائد اس بات سے بھی واقف نہیں کی جو زمین شہدا کے لہو سے سیراب ہوتی ہے وہ بہت زرخیز اور سر سبز و شاداب ہوتی ہے۔ اسکے سپوت اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر میلی نگاہ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔